فیکٹ چیک: اگنی پتھ مخالف تشدد کے دوران ٹرین کی بوگی جلانے کا پرانا ویڈیو فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ وائرل
سوشل میڈیا پر ٹرین کی بوگی جلانے کا ویڈیو 2022 کے اگنی پتھ مخالف تشدد کا جسے فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ وائرل کیا جارہا ہے

Claim :
ٹرین کو مسلمان جلائیں تو بھی عدالت انہیں سزا نہیں دیتیFact :
اگنی پتھ اسکیم مخالف تشدد کے دوران سکندرآباد ریلوے اسٹیشن پر بوگی جلانے والے مسلمان نہیں
سپریم کورٹ میں 2002 کے گودھرا ٹرین آتشزدگی معاملے سے متعلق مجرمانہ اپیلوں کی سماعت 13 فروری کو ہوگی۔ فروری 2002 میں گجرات کے گودھرا میں ایک ٹرین کی بوگی میں آگ لگنے سے 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس کے نتیجے میں ریاست میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
سال 2011 میں ٹرائل کورٹ نے 31 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے 11 کو سزائے موت اور 20 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور63 دیگر کو بری کر دیا۔ اس کے بعد 2017 میں گجرات ہائی کورٹ نے ان سزاؤں کو برقرار رکھا لیکن سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
اس بیچ، سوشل میڈیا پر ٹرین کی بوگی کو جلانے کوشش کرنے والے نوجوانوں کا ویڈیو شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا جارہا ہیکہ "ٹرین کو جلانے کے باوجود عدالت انہیں سزا نہیں دیتی۔ کیوں کہ کانگریس نے تمام محکمہ جات میں چئیرمن سے لیکر کلکروں تک صرف غداروں کو بٹھا رکھا ہے۔ اس لئے یہ ملک مجرموں کا اڈہ بن چکا ہے۔"
دعویٰ:
ట్రైన్ ని తగలబెడుతున్న ముస్లింలు, ఇలాంటి దేశద్రోహలు 25 లక్షలు చేసినా కోర్టులు వీళ్ళని శిక్షించలేవు, కారణం కాంగ్రెస్ ప్రతి వ్యవస్థలో ఉద్యోగులుగా దేశ ద్రోహులతో పూర్తిగా నింపేయడమే ----చైర్మన్ నుండి చెప్రాసి వరకూ నింపి పెట్టింది. అందుకే దేశం నేరాలకు కేరాఫ్ గా తయారైంది
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں ملاحظہ کریں اور وائرل دعوے کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال کے دوران وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ فرضی پایا۔
ہم نے وائرل ویڈیو میں کئے گئے دعوے کی جانچ پڑتال سے قبل اس ویڈیو کا بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ کہ یہ ویڈیو 17 جون 2022 کا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہیکہ ٹرین کو برباد نہ کریں جس پر دوسرا شخص کہتا ہیکہ انہیں ایسا کرنا پڑرہا ہے۔ اس بات چیت سے معلوم ہوتا ہیکہ بوگی کو آگ لگانے والے نوجوان بے روزگار معلوم ہوتے ہیں۔
اس جانکاری کی مدد سے مناسب کیورڈس استعمال کرتے ہوئے جب گوگل سرچ کیا گیا توہمیں NDTV کا ایک نیوز آرٹیکل ملا جس میں بتایا گیا ہیکہ "مرکز کی اگنی پتھ اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے مظاہرین نے حیدرآباد کے سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کو نذرآتش کردیا۔"
اسکے چند روز قبل، مرکزی کابینہ نے اگنی پتھ اسکیم کو منظوری دی تھی جس کا مقصد نوجوانوں کو مسلح فوج میں 4 سالہ مدت کیلئے بھرتی کرنا ہے۔ اس اسکیم کے تحت بھرتی ہونے والے امیدواروں کو اگنی ویر کہا جائیگا۔
مظاہرین کو اسکیم کی مختصر مدتی سروس اور اس کے تحت فوج میں بھرتی ہونے نوجوانوں والوں کو ریٹائرمنٹ اور پنشن بینی فٹس نہ دئے جانے پر اعتراض ہے۔
پھر ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کی مدد سے وائرل ویڈیو کے کلیدی فریمس سرچ کئے تو ہمیں 'جرنسلٹ عتیق' نامی یوٹیوب چینل پراس واقعہ کا ویڈیو ملا۔ اس ویڈیو کا ٹائیٹل ہے۔ "عادل آباد کے پرتھوی راج فسادات کا مساسٹر مائینڈ ہے اور اسی نے بوگی کو آگ لگائی۔"
ہم نے اپنی تحقیق جاری رکھی تو ایکس پلیٹ فارم پر فائینسٹ آبزرور نامی صارف نے اس وائرل ویڈیو کے جواب میں RSS سے وابستہ 'آرگنائزر ویکلی' کی جون 2022 کی ٹوئیٹ کا حوالہ دیا ہے۔
اسی ٹوئیٹ میں ہمیں دی کشمیر مانیٹر کا آرٹیکل ملا جس میں حیدرآباد کے صحافی 'آصف یار خان' کی ٹوئیٹ کے حوالے سے رپورٹ کیا گیا ہیکہ اگنی پتھ اسکیم سے متعلق تشدد کے معاملے پولکیس نے ایک مشتبہ نوجوان پرتھوی راج کو گرفتار کیا ہے۔
وائرل ویڈیو [ جو بعد میں حذف کردیا گیا] پر ردعمل دیتے ہوئے ریلوے پروٹیکشن فورس نے ٹوئیٹ میں لکھا کہ "یہ ویڈیو 17 جون کا سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کا ہے۔ اس ویڈیو میں نظر آنے والے دو نجوانوں کی شناخت سنتوش اور پردوی کے طور پر کی گئی ہے۔ جی آر پی/آر پی ایف مختلف دفعات کے تحت 60 سے زائد ملزمین کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج کئے ہیں۔ مزید گرفتاریاں باقی ہیں۔"
ان شواہد اور میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر واضح ہوجاتا ہیکہ اگنیک پتھ اسکیم مخالف تشدد کے دوران سکندرآباد ریلوے اسٹیشن پر بوگی کو جلانے والے دو نوجوان مسلم نہیں تھے بلکہ انکے نام سنتوش اور پردھوی راج ہیں۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا فرقہ وارانہ دعویٰ فرضی ثابت ہوا۔