Fact Check: اروند کیجریوال پر آئی آئی ٹی میں تعلیم کے زمانے میں ریپ کا الزام لگانے والے اخبار کا تراشہ ڈیجیٹل طور پر بنایا گیا ہے
سوشل میڈیا پر ایک اخبار کا کلپ شئیر کیا جارہا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہیکہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو آئی آئی ٹی کھڑگ پور میں زیر تعلیم کے دوران مقامی لڑکی کے ریپ کے الزام میں گرفتار کرکے پوچھ تاچھ کی گئ تھی
Claim :
ایک اخبار کے تراشے کا دعویٰ ہے کہ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال پر آئی آئی ٹی میں تعلیم کے زمانے میں عصمت دری کا الزام لگایا گیا تھاFact :
اخبار کی رپورٹ دھوکہ دہی پر مبنی ہے، اور اسے ڈیجیٹل طور پر بنایا گیا ہے
اروند کیجریوال ایک بھارتی سیاست دان ہیں، جو دہلی کے موجودہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ فی الحال وہ عدالتی تحویل میں ہے۔ 21 مارچ 2024 کوانہیں مبینہ شراب پالیسی گھوٹالے کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ 7 مئِ تک انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی تحویل مین رہیں گے۔
اس بیچ، ایک اخبار کی کلپنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ اس کلپ کا عنوان ہے "آئی آئی ٹی کے طالب علم پر عصمت دری کا الزام"۔ اس مضمون میں کہا گیا ہیکہ، آئی آئی ٹی کھڑگ پور کے 19 سالہ طالب علم اروند کیجریوال پر ایک مقامی لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام لگایا گیا تھا اور پولیس نے پوچھ تاچھ کے لئے انہیں حراست میں لیا تھا۔ اخبار کی کلپنگ کی تاریخ 8 جون 1987 کے طور پر بتائی گئی ہے۔
یہ دعویٰ واٹس ایپ پر بھی وائرل ہو رہا ہے۔
فیکٹ چیک:
یہ دعویٰ فرضی ہے۔ اخبار کی کلپنگ ڈیجیٹل طور پر بنائی گئی ہے۔
جب ہم نے اخبار، ٹیلی گراف یا ٹیلی گرام وغیرہ کے مقامی ایڈیشن تلاش کیے تو ہمیں ایسی کوئی مستند نئی رپورٹ نہیں ملی جس میں ایسی کوئی خبر شائع کی گئی ہو۔
مزید تحقیق کرنے پر ہم نے پایا کہ سوشل میڈیا پر وائرل مضمون میں کچھ تضادات ہیں. رپورٹر کا نام یا واقعہ کی تاریخ نہیں ہے۔ مضمون کلپ 'Fodey.com' نامی ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے، جوکہ ایک اخبار کلپنگ جنریٹر ویب سائیٹ ہے۔
یہاں ہم نے، ویب سائٹ Fodey.com کا استعمال کرتے ہوئے Telugupost کی ایک اخباری کلپنگ تیار کی ہے۔ یہاں شئیر کئے گئے دونوں تراشوں کا اگر غور سے مشاہدہ کیا جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رپورٹ کا تیسرا کالم، جو ہر کلپنگ میں کٹا ہوا ہے، میں ایک جیسے الفاظ ہیں۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اروند کجریوال کے بارے میں وائرل ہونے والی اخباری کلپنگ ڈیجیٹل طور پر تیار کی گئی ہے نہ کہ کسی حقیقی اخبار کی خبر ہے۔
اسی دعوے کو سال 2020 میں چند فیکٹ چیکنگ اداروں نے بھی مسترد کیا ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔