Fact Check: بنگلورو میں نیا بس روٹ 420 لانچ کا دعویٰ والی تصویر، دراصل MORPHED کی گئی ہے
دعویٰ کیا گیا ہے کہ بس روٹ ’420‘ کو کرناٹک حکومت نے مناسب طریقے سے شروع کیا ہے، اس لیے ودھان سودھا کے سیاست دانوں کے لیے گرفتاری کے بعد پراپنا اگرہارا جیل جانا آسان ہو جائے گا۔
Claim :
کرناٹک حکومت نے بنگلورو میں ودھان سودھا سے پراپنا اگرہارا تک روٹ نمبر -420 کے ساتھ ایک بس شروع کی ہے۔Fact :
تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ بنگلورو میں 420 بس روٹ ہی نہیں ہے۔
روٹ نمبر 420 والی بس کی تصویر اس دعوے کے ساتھ گردش میں ہے کہ یہ بنگلورو میں ایک نیا بس روٹ ہے جسے کرناٹک حکومت نے شروع کیا ہے۔ بس کا راستہ ودھان سودھا سے شروع ہوتا ہے اور پراپنا اگرہارا پر ختم ہوتا ہے۔
دعویٰ اس طرح ہے کہ ’’پہلی مرتبہ، بنگلور میں ایک بس روٹ کو شروعات سے منزل تک مکمل طور پر منصوبہ بند بنایا گیا ہے۔ روٹ نمبر 420 ودھانا سودھا سے... پراپنا اگرہارا (سنٹرل جیل) تک‘‘
ودھان سودھا بنگلورو میں قانون ساز اسمبلی ہے اور پراپنا اگرہارا وہ جگہ ہے جہاں بنگلورو میں مرکزی جیل کی میزبانی کی جاتی ہے، یہ ریاست کرناٹک کی سب سے بڑی جیل ہے۔
اس وائرل پوسٹ میں طنزیہ طور پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ بس روٹ ’420‘ کو کرناٹک حکومت نے مناسب طریقے سے شروع کیا ہے، اس لیے ودھان سودھا کے سیاست دانوں کے لیے گرفتاری کے بعد پراپنا اگرہارا جیل جانا آسان ہو جائے گا۔
فیکٹ چیک:
یہ دعویٰ غلط ہے۔ کرناٹک حکومت نے ایسی کوئی بس، روٹ نمبر 420 کے ساتھ شروع نہیں کی ہے جو ودھان سودھا سے پاراپنا اگراہا تک جاتی ہو۔ بنگلورو، کرناٹک میں ایسا کوئی بس روٹ نمبر نہیں ہے۔ تصویر مورف شدہ ہے۔
جب ہم نے بنگلور کے بس روٹس کو تلاش کیا تو شہر میں کوئی بھی بس روٹ نمبر 420 نہیں تھا۔ ہم نے ودھان سودھا سے پراپنا اگرہارا جیل تک چلنے والے بس روٹس کی جانچ کی، ہمیں ودھان سودھا سے پراپنا اگرہارا تک چلنے والے کچھ بس روٹس ملے، تاہم بس روٹ 420 یہاں نہیں ملا۔
جب ہم نے اس تصویر پر گوگل ریورس امیج سرچ کا عمل کیا تو ہمیں، ایک تصویر ملی جسے رائزنگ سٹیزن نامی بلاگ میں اگست 2009 میں شائع کیا گیا تھا۔ بلاگ میں کہا گیا ہے کہ BMTC اصلاح کر رہا ہے۔
ہمیں بالکل یہی تصویر BMTC والوو بس کے سوشل میڈیا اکاونٹس پر بھی شئیر کی ہوئی دستیاب ہوئی۔ یہ تصویر 28 ستمبر 2022 کو پبلش کی گئی تھی۔
بس روٹ کا نمرب 365 ہے، نہ کہ 420 ہے جب کہ اس میں بس کا روٹ ’’نیشنل پارک‘، کنڑ زبان میں لکھا ہوا ہے۔
اس لیے وائرل تصویر ایک مورف شدہ (اصل تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی) تصویر ہے، اور طنزیہ تبصرہ کرنے کے لیے بس کا روٹ نمبر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دعویٰ جھوٹا ہے۔