Fact Check: ہندو لڑکوں کی جانب سے ایک برقعہ پوش مسلم لڑکی کو پیٹنے کے ویڈیو کا کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں، یہ واقعہ انڈونیشیا کا ہے
کیا اب بھی آپ اپنی بہن بیٹی کا ایڈمیشن ایسے کالج میں کرنا پسند کریں گے جہاں ہندو لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھائی کرتے ہیں۔
Claim :
وائرل ویڈیو میں ہندو لڑکوں کو ہندوستان کے ایک کالج میں حجاب میں ملبوس مسلمان لڑکی کو دھونس دکھاتے اور مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔Fact :
یہ ویڈیو پرانا اور انڈونیشیا کا ہے، یہ ویڈیو ہندوستان کا نہیں ہے
چند لڑکوں کو ایک لڑکی کو مارتے ہوئے دکھائی دینے والی 29 سیکنڈ دورانیے کی ایک ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندو لڑکے ہندوستان میں برقعہ پوش مسلمان لڑکی کو مار رہے ہیں اور ان کی سنگھی (ہندو نواز) ذہنیت کی وجہ سے وہ اس طرح کے ہیں۔ حجاب پہننے پر غریب لڑکی کو بے دردی سے پیٹا جارہا ہے۔
ہندی زبان میں یہ دعویٰ کچھ اس طرح ہے: ’’ ये किसी कॉलेज का वीडियो है , और ये ऐसा कॉलेज है जहां हिंदू लड़के लड़कियां साथ पढ़ाई करते हैं, यहां देखिए हिजाब वाली लड़कियों के साथ कैसा बर्ताओ करता है संघी मानसिकता वाले लड़के , किया अब भी आप अपनी बहन बेटी का एडमिशन ऐसे कॉलेज में करना पसंद करेंगे जहां हिंदू लड़के लड़कियां साथ पढ़ाई करते हैं ‘‘
جب اس دعوے کا ترجمہ کیا گیا تو یہ اس طرح ہے: ’’ یہ کسی کالج کا ویڈیو ہے۔ اور یہ ایسا کالج ہے جہاں ہندو لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھائی کرتے ہیں۔ یہاں دیکھیے حجاب والی لڑکیوں کے ساتھ کیسا برتاو کرتے ہیں سنگھی ذہنیت والے لڑکے۔ کیا اب بھی آپ اپنی بہن بیٹی کا ایڈمیشن ایسے کالج میں کرنا پسند کریں گے جہاں ہندو لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھائی کرتے ہیں۔‘‘
فیکٹ چیک:
یہ دعویٰ غلط ہے۔ یہ ویڈیو سال 2020 کا ہے، اور یہ واقعہ انڈونیشیا میں پیش آیا ہے۔
اس ویڈیو سے نکالے گئے کی فریم پر جب گوگل سرچ کا عمل کیا گیا تو ہمیں اس ضمن میں متعدد نیوز آرٹیکلس پبلش کیے گئے ملے جو انڈونیشیا کی ویب سائٹ کے ہیں۔
ہمیں، Jabar.tribunnews.com پر ایک آرٹیکل ملا جس میں یوٹیوب پر اسی کڑی کا اصل ویڈیو شیئر کیا گیا ملا۔ مضمون میں تصدیق کی گئی ہے کہ ویڈیو شوٹ کی گئی تھی اور یہ واقعہ انڈونیشیا کے ایک جونیئر ہائی اسکول میں پیش آیا تھا۔
Suara.com کے مطابق، تین مرد طالب علموں نے ایک طالبہ کے ساتھ سینٹرل جاوا، پورویریجو قصبے کے ایک جونیئر ہائی اسکول میں چھیڑ چھاڑ کی۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی محمدیہ مڈل اسکول میں زیرتعلیم بتائی جاتی ہے۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکوں کو حکام نے گرفتار کر لیا۔
اسی طرح، bogor.Tribunnews.com کے مطابق، یہ واقعہ 13 فروری 2020 کو پیش آیا۔ ویڈیو سب سے پہلے ایک فیس بک صارف نے پوسٹ کی تھی، جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لڑکے،باحجاب لڑکی کو تھپڑ اور لاتیں مار رہے ہیں۔ پورویجو کے ڈپٹی چیف آف پولیس کمشنر اینڈیس عرفان طوفانی نے تصدیق کی کہ یہ واقعہ انڈونیشیا کے شہر پورویجو کے محمدیہ اسکول میں پیش آیا۔
اس لیے وائرل ویڈیو میں ہندو (سنگھی) لڑکوں کو حجاب میں ملبوس مسلمان لڑکی کو مارتے ہوئے نہیں دکھایا گیا ہے۔ اس کا کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔ یہ ویڈیو انڈونیشیا کی ہے جو سال 2020 میں لی گئی تھی۔ وائرل ویڈیو کا دعویٰ غلط ہے۔