Fact Check: بچہ کی مصروف سڑک پر نماز ادا کرتی ہوئی ویڈیو ہندوستان کی نہیں، دبئی کی ہے
’’ایک بچے کی وجہ سے پوری ٹریفک کا راستہ بدل دیا جاتا ہے، یہ لوگ آئین کو بھی اپنے طریقے سے چلاتے ہیں، بس کچھ وقت اور 30 سے 40 فیصد ہونے دو پھر دیکھو کیا کیا کرتے ہیں،
ایک بچے کی مصروف سڑک پر نماز ادا کرتے ہوئے اور ٹریفک میں رکاوٹ پیدا کرتی ہوئی ویڈیو، یہ کہتے ہوئے وائرل ہورہی ہے کہ یہ واقعہ ہندوستان میں پیش آیا ہے۔ اس ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ ایک گارڈ، نماز ادا کررہے بچے کی حفاظت کررہا ہے اور ٹریفک کو اس وقت تک روکے رکھتا ہے جب تک بچے کی نماز ادا نہیں ہوجاتی۔ گاڑیوں کو اس وقت جانے کی اجازت ملتی ہے جب بچہ اپنی نماز مکمل کرلیتا ہے۔
یہ دعویٰ ہندی میں کچھ اس طرح کیا گیا ہے
“एक बच्चे के कारण पूरी ट्रैफिक का रूट बदल जाता है यह लोग संविधान को भी अपने तरीके से चलाते है बस कुछ टाइम और 30 से 40 % होने दो फिर देखो क्या क्या करते है अभी वक्त है हिंदुओ जागो छोटी छोटी चीजों पर धरना लगा कर बैठ जाते हो कभी आने वाली विकराल समस्या को भी जानने की कोशिश करो ’’
جب اس دعویٰ کا ترجمہ کیا گیا تو یہ کچھ اس طرح ہے:
’’ایک بچے کی وجہ سے پوری ٹریفک کا راستہ بدل دیا جاتا ہے، یہ لوگ آئین کو بھی اپنے طریقے سے چلاتے ہیں، بس کچھ وقت اور 30 سے 40 فیصد ہونے دو پھر دیکھو کیا کیا کرتے ہیں، ابھی وقت ہے ہندوؤں جاگو، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر دھرنا لگا کر بیٹھ جاتے ہو، کبھی آنے والی عظیم پریشانیوں کو بھی جاننے کی کوشش کرو۔‘‘
فیکٹ چیک
ویڈیو کو لے کر جو دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ’اس کا تعلق ہندوستان سے ہے‘، بالکل غلط ہے۔
جب ہم نے اس کی جانچ پڑتال گوگل ریورس ایمیج سرج کے ذریعے کی، تو ہم نے پایا کہ یہ ویڈیو، طارق فتح نے اس عنوان کے تحت شیئر کیا ہے کہ’’ آخر کیسے ایک ملک اتنے زیادہ ملاشی (بڑی آنت کا نچلا حصہ/مقعد) پیدا کرسکتا ہے؟ پاکستان یہ کیسے کرتا ہے؟ طارق فتح کی جانب سے ٹوئٹ پر شیئر کیا گیا یہ ویڈیو، اسی واقعہ کا ہے جو وائرل ہورہی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے، تاہم یہ ویڈیو ، وائرل ویڈیو سے طویل ہے، اور اس واقعے کو تفصیل اور وضاحت کے ساتھ دکھاتی ہے۔
اس ویڈیو کی غور سے جانچ کرنے کے بعد کچھ شواہد ملتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو ہندوستان کا نہیں بلکہ دبئی کا ہے۔
پہلا:جب ہم نے سیکورٹی گارڈ کی یونیفارم کا بغور جائزہ لیا تو اس کے ہاتھ پر لگے بیاج، اور اس کی شرٹ کے پشت پر عربی الفاظ’حراسۃ‘ تحریر کیے ہوئے ہیں دکھائی دئیے، جس کا مطلب محافظ یا گارڈ کے ہوتے ہیں۔ جب ہم نے اس یونیفارم کے بارے میں مزید تلاش کیا تو، دبئی اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے چند نیوز رپورٹس ہمیں ملے جس میں ویڈیو میں دکھائی دے رہے محافظ کی طرز کے یونیفارم پہنے چند لوگ دکھائی دئیے۔
ہمیں یوٹیوب پر پبلش کیا گیا ایڈجاہ ایسسٹ مینجمنٹ گروپ کا ایک ویڈیو بعنوان’Arkan Security Solutions‘ہمیں ملا جو سال 2015 کا ہے، اس ویڈیو میں ایک شخص اسی طرح کا یونیفارم زیب تن کیا ہوا ہے جو وائرل ویڈیو میں گارڈ نے پہن رکھی تھی اور اس کے بھی شرٹ اور بیاج پر عربی تحریر’حراسۃ‘ لکھا ہوا ہے۔
دوسرا: وائرل ویڈیو میں موجود گاڑیوں کے لائسنس پلیٹس کا ہندوستان سے تعلق نہیں ہے۔ اس بارے میں مزید سرچ کرنے پر ہم نے پایا کہ اس طرح کی لائسنس پلیٹس دبئی کی ہوتی ہیں، جہاں 5 اعداد والی نمبر پلیٹس ہوتی ہیں اور ان پر ’دبئی‘ تحریر کیا ہوا ہوتا ہے۔
تیسرا: وائرل ویڈیو میں بتائی جارہی سڑک پر گاڑی سوار ڈیلیوری پارٹنر کا بغور جائزہ لیا، اور اس بارے میں ریورس امیج سرچ کی مدد لی، تو ہمیں alamy Stock images ملے جس میں ’طلبات‘ فوڈ ڈیلیوری پارٹنر لکھا ہوا تھا۔
چوتھا: وائرل ویڈیو کے آخر میں ہم نے پایا کہ جس شخص نے یہ ویڈیو ٹک ٹاک اکاونٹ آئی ڈی سے آن لائن پوسٹ کی ہے وہ آئی ڈی @ajom75uddin ہے۔ اسی آئی ڈی سے ایک فیس بک اکاونٹ بھی ہمیں ملا۔ اس شخص کی فیس بک پروفائل میں اس نے ذکر کیا ہے کہ اُس کا تعلق دبئی سے ہے اور اس نے اس واقعہ کی ویڈیو ریل جنوری 2023 میں پوسٹ کی تھی۔
اس لیے، ایک بچے کو مصروف ترین سڑک پر نماز پڑھتے ہوئے دکھائی جارہی ویڈیو دبئی کی ہے، نہ کہ ہندوستان کی۔ یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔