Fact Check: بنگلہ دیش میں طلبا کی پرتشدد جھڑپوں کے ویڈیو بھارت میں فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ وائرل
بنگلہ دیش میں اسٹوڈنٹ کی موت پر طلبا کے مختلف گروپس میں جھڑپوں کو بھارت میں ہندو۔مسلم دشمنی کے دعوے کے ساتھ وائرل کیا جارہا ہے
Claim :
بنگلہ دیش میں ہندووں کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہےFact :
ڈھاکہ میں ابھی جیت کی ڈینگو سے موت پر طلبا کی جھڑپیں فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ وائرل
بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی برطرفی کے مہینوں بعد بھی بدامنی کا سلسلہ جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کی راجدھانی میں اسکان تنظیم کے رکن کرشنا داس پربھو کو گرفتار کرلیا گیا کیوں کہ انہوں نے اسکان کے شردھالووں پر حملوں کی مذمت میں مختلف ریلیاں منعقد کی تھیں۔
کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی وڈرا نے پڑوسی ملک میں اقلیتی ہندووں کے خلاف جاری تشدد کی کارروائیوں پر تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے ایک ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ "بنگلہ دیش میں اسکان ٹیمپل کے سنت کی گرفتار اور اقلیتی ہندووں کے خلاف جاری تشدد کی خبریں انتہائی تشویش ناک ہیں۔" انہوں نے حکومت ہند سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر کوئی کارروائی کرے۔
اس بیچ سوشل میڈیا پر نوجوانوں پر حملوں کی پرتشدد تصویریں شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا جارہا ہیکہ، " یہ بنگلہ دیش ہے جہاں انتہاپسند اسلام پسند شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر ہندوؤں کو ہلاک کررہے ہیں۔ جی ہاں، وہ نہ تو آپ کی ذات دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی انہیں آپ کے یادو، پنڈت، کورمی، تمل، تیلگو، کنڑ یا جنرل، ایس سی، ایس ٹی، او بی سی ہونے کی کوئی پرواہ ہے۔ وہ آپ کو اسلئے ہلاک کررہے ہیں کیوں کہ آپ مسلمان نہیں ہیں۔"
@RealBababanaras نامی ایکس یوزر کے پوسٹ کو 66ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا، 5 ہزار سے زیادہ بار پسند اور 3ہزار کے قریب ری۔شئیر کیا گیا ہے۔
وائرل ٹوئیٹ یہاں ملاحظہ کریں۔
This is Bangladesh. Hindus were identified by checking their IDs and being killed by radical Islamists. Yes, they are not asking the caste. They don't care whether you are Yadav, Pandit, Kurmi , Tamil,Telugu,Kannada or Gen, SC, ST, OBC... They are killing if you are not a Muslim.
یہاں وائرل پوسٹ میں کئے گئَے دعوے کا اسکرین شاٹ ملاحظہ کریں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیخٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال کے دوران وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا۔
سب سے پہلے ہم نے گوگول ریورس امیج سرچ ٹول کی مدد سے وائرل پوسٹ میں شامل تصویروں کو سرچ کیا تو ہمیں کئی ایک میڈیا نیوز آرٹیکلس ملے۔ جن میں سے ہمیں ڈھاکہ ٹربیون کا 25 نومبر کا مضمون ملا۔
اس مضمون میں بتایا گیا ہیکہ ڈاکٹر محبوب الرحمان ملا [ DMRC ] کالج کے طالب علم کی ڈھاکہ نیشنل میڈیکل کالج [ DNMC] میں ڈینگو کے علاج کے دوران موت کے بعد ملک کے 37 تعلیمی اداروں میں بدامنی پھیل گئی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ DMRC کے طلبا نے الزام عائد کیا کہ DNMC کے ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی وجہ سے گذشتہ ہفتہ ابھی جیت حوالدار کی موت ہوئی۔ ان طلبا نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے ان سے بات کرنے سے انکار کردیا اور موت کی وجہ جاننے کی مانگ کرنے پر علاج کے اخراجات معاف کردینے اور 10 ہزار ٹکہ کا معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کی جس پر طلبا برہم ہوگئے۔
اس بیچ، وہاں اولڈ ڈھاکہ کی کبی نظرل گورنمنٹ کالج اور گورنمنٹ شہید سہروردی کالج کی طلبا تنظیم اور بنگلہ دیش نیشنلست پارٹی کی طلبا جماعت 'چھترا دل' کے طلبا پہنچ گئے اور انہیں سیاسی کارکن بتاکر انکی پٹائی کی۔ اسکے علاوہ دوسرے دن یعنی 20 نومبر کو بھی چھترا دل کے طلبا نے ان پر حملہ کیا جس میں 20 طلبا زخمی ہوگئے۔
اس کے بعد DMRC کے طلبا نے اسپتال میں توڑ پھوڑ کی اورڈھاکہ کی 34 دیگر کالجوں کے طلبا نے اس تخریبی کارروئی میں حصہ لیا۔
اسکے بعد DMRC اور 34 دیگر کالجوں کے طلبا پرانا ڈھاکہ پہنچ کر وہاں کی کبی نظرل گورنمنٹ کالج اور گورنمنٹ شہید سہروردی کالج پر حملہ کردیا۔ اس وقت کالج میں امتحانات چل رہے تھے اور احتجاجی طلبا کے پتھراو میں 100 سے زائد طلبا زخمی ہوگئے۔ احتجاجی طلبا نے سہروردی کالج کا باب الداخلہ توڑ دیا، اسکے دفتر میں توڑ پھوڑ مچادی اور اسکے سائنس لیب برباد کردئے۔
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہیکہ جانچ سے پتہ چلا ہیکہ کئی کالجوں کے طلبا یونائیٹیڈ کالجس آف بنگلہ دیش نامی فیس بک پیج سے جڑے ہیں۔ اس پیج پر ابھی جیت کی موت سے متعلق کئی پوسٹ پائے گئے ہیں اور اسی گروپ سے تمام کالجوں کے طلبا کو تحریک چلانے کیلئے اکٹھا کیا گیا ہے۔
ڈھاکہ میَٹروپولیٹن پولیس کے ڈپٹی کمشنر آف میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنس محمد طالب الرحمان نے ایک بیان میں بتایا کہ ان جھڑپوں میں 25 افراد زخمی ہوگئے۔ انہوں نے دو افراد کی ہلاکت کے دعووں کی تردید کی۔
بنگلہ نیوز24 کے ویب پورٹل کے آرٹیکل میں محبوب الرحمان کالج پر اجتجاجی طلبا کے حملے اور تباہ کاریاں کی تصویریں شامل ہیں جو وائرل پوسٹ کی تصویروں سے میل کھاتی ہیں۔
ڈیلی اسٹار نامی میڈیا کے ادارہ نے تھریڈس پلیٹ فارم پر طلبا کی جھڑپوں کی تصویریں پوسٹ کی ہیں جو وائرل پوسٹ میں شامل کی گئی ہیں۔
پروتھوم آلو نامی ویب سائیٹ پر بھی جھڑپوں کی تصویریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
ان میڈیا رپورٹس کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہیکہ بنگلہ دیش میں حالیہ بدامنی میں کوئی فرقہ وارانہ عنصر نہیں پایا گیا۔ مختلف کالجوں کے طلبا ابھی جیت نامی طالب علم کی دوران علاج مبینہ لاپرواہی کی وجہ سے ہونے والی موت پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے۔ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتیوں پرحملہ ہورہے ہیں تاہم وائرل پوسٹ میں طلبا کی جھڑپوں کی تصویروں اور ویڈیوز دکھاکر جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ پڑوسی ملک کے مسلمان ہندووں کو جگہ جگہ قتل کررہے ہیں۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ فرضی ثابت ہوا۔