Fact Check:بنگلہ دیش کے مظاہروں سے متعلق دی اکانومسٹ کے سرورق کی تصویر سے فلسطینی پرچم سنسر کرنے کا گمراہ کن دعویٰ وائرل
ایک وائرل دعویٰ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ دی اکانومسٹ میگزین نے بنگلہ دیش کے مظاہروں سے متعلق اپنے تازہ شمارے کے سرورق فوٹو سے فلسطینی پرچم کو سنسر کیا ہے
Claim :
دی اکانومسٹ نے اپنے فرنٹ کور پر شائع بنگلہ دیش مظاہروں کی تصویر میں ترمیم کیFact :
بنگلہ دیش میں احتجاج کے دوران فلسطینی پرچم لہرایا گیا تھا، لیکن تصویر کشی کے وقت شاید وہاں پرچم موجود نہ ہو
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد مظاہرین کی جناب سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دئے جانے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر پڑوسی ملک بھارت چلی گئیں۔
شیخ حسینہ کی 15 سالہ حکمرانی کے خاتمے کے بعد مظاہرین کا ہجوم سڑکوں پر نکل آیا اور کا جشن منایا۔ ڈھاکہ میں ہجوم نے ٹینکوں پر چڑھ کر حسینہ کے والد اور آزادی کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے کو گرادیا۔
عبوری حکومت کے ایک اعلیٰ مشیر کے مطابق شیخ حسینہ کی زیر قیادت حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 400 سے زائد دیگر نے پولیس کی فائرنگ میں اپنی بینائی گنوادی۔ مشیر صحت نورجہاں بیگم نے راجرباغ کے سینٹرل پولیس اسپتال کے دورے کے دوران یہ اطلاع دی، جہاں انہوں نے زخمی پولیس اہلکاروں سے بات کی اور سرجیکل ڈپارٹمنٹ میں زخمیوں کی طبی حالت کے بارے میں دریافت کیا۔
ایسے میں ایک میگزین کے سرورق سے ملتی جلتی ایک گرافک تصویر "بنگلہ دیش کا دوبارہ آغاز" کے عنوان کے ساتھ انٹرنیٹ پر بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے ان تصاویر کے ساتھ شامل کیپشن میں لکھا کہ 'دی اکانومسٹ کو شاید اس کے سرورق پر فلسطینی پرچم چھاپنے میں کوئی دقت ہو۔"
ایک اور صارف نے لکھا کہ "گلوبلسٹوں کے ترجمان دی اکانومسٹ میگزین نے بنگلہ دیش مظاہروں سے متعلق اپنے تازہ ترین شمارے کے سرورق پر حقیقی تصویر سے فلسطینی پرچم کو سنسر کیا ہے"۔
فیکٹ چیک:
یہ دعوی گمراہ کن ہے۔ دی اکانومسٹ نے بنگلہ دیش مظاہروں سے متعلق اپنے تازہ ترین شمارے کے سرورق پر حقیقی تصویر میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
جانچ پڑتال کے بعد پتہ چلا کہ گیٹی امیجز نے وائرل ہونے والی تصویر سے ملتی جلتی ایک تصویر پوسٹ کی جس کا عنوان ہے "حکومت مخالف مظاہرین وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کیلئے جمع ہوتے ہوئے۔"
تصویر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے گیٹی نے کہا: "گنہ بھبن، ڈھاکہ، بنگلہ دیش - 2024/08/05: حکومت مخالف مظاہرین ڈھاکہ میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے محل پردھاوا بولنے کیلئے جمع ہوتے ہوئے۔ بنگلہ دیش میں ایک ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے پر تشدد مظاہروں کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ کی 15 سالہ حکومت انکے ملک سے فرار ہونے کے بعد 5 اگست 2024 کو ختم ہو گئی۔ فوج نے عبوری حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ (تصویر کے ایم اسد / لائٹ راکٹ بذریعہ گیٹی امیجز)
گیٹی امیجز کی تصویر میں شامل فوٹوگرافر کے نام ، کے ایم اسد، کے مطلوبہ الفاظ کی مدد سے جب ہم نے گوگل سرچ کیا تو ہمیں کے ایم اسد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ملے، اور ان کی بائیو میں لکھا ہیکہ وہ ایک آزاد فوٹوگرافر ہیں۔
11 اگست ، 2024 کو ، انہوں نے تبدیل شدہ امیج کے مسئلے کے بارے میں ایک وضاحت شیئر کی۔
پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ 'دی اکانومسٹ' میں شائع ہونے والی میری ایک تصویر کے بارے میں غلط فہمی کے بارے میں کے ایم اسد کی وضاحت'
انہوں نے یہ بھی کہا: "اس تصویر میں ہم لوگوں کو سابق وزیر اعظم کے دفتر پر قبضہ کرتے اور بنگلہ دیش کا قومی پرچم لہراتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا، تو میں نے کئی تصویریں لیں، دفتر میں داخل ہوا، باہر آیا، اور کچھ تصاویر لیں- وہاں ایک ساتھ کئی چیزیں ہو رہی تھیں۔ اس وقت بہت کچھ بہت تیزی سے ہو رہا تھا۔ لوگوں نے دوسرے جھنڈے بھی اٹھائے تھے، جیسا کہ آپ اسی جگہ کی دیگر تصاویر (جو اس دعوے کے ساتھ بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ہیں) میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں فلسطینی اور کمیونسٹ جھنڈے واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ تاہم، میں اس مخصوص وقت پر وہاں نہیں تھا. میں دوسری جگہوں کی تصویریں لے رہا تھا۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں موقع پر تھا تو کوئی بھی ان دو جھنڈوں کے ساتھ وہاں موجود نہیں تھا، اور 'دی اکانومسٹ' نے سرورق پر شائع تصویر کو فوٹوشاپ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ان دو جھنڈوں کو نہیں مٹایا۔ انہوں نے تصویر کو اسکی اصلہ حالت میں شائع کیا. انہوں نے جو تصویر شائع کی ہے وہ بالکل وہی ہے جو میں نے فراہم کی تھی، اور جیسا کے میں نے اس نظارے کو دیکھا تھا۔
ہم نے اپنی تلاش جاری رکھی تو ہمیں 5 اگست 2024 کو بی بی سی نیوز بنگلہ کے یوٹیوب چینل پر اس عنوان کے ساتھ اپ لوڈ کیا گیا ایک ویڈیو ملا۔ "বাংলাদেশে বিক্ষোভের মুখে প্রধানমন্ত্রী দেশ ছেড়ে পালানোর প্রথম নজির
ترجمہ: "ایسا پہلی بار ہوا ہیکہ کسی وزیر اعظم نے بنگلہ دیش میں احتجاج کی وجہ سے ملک چھوڑ دیا ہو۔"
ویڈیو میں 11 سیکنڈ کے ٹائم اسٹیمپ پر ہم نے پایا کہ احتجاج کے دوران واقعی فلسطینی پرچم لہرایا گیا تھا۔
ہم نے یہ بھی پایا کہ نیویارک ٹائمز نے اپنے 6 اگست 2024 کے شمارے میں بھی یہی تصویر شائع کی تھی۔ اس تصویر میں ہمیں فلسطینی پرچم نظر نہیں آیا۔
لہذا، اپنی تحقیق کے دوران ہم نے پایا کہ یہ دعوی گمراہ کن ہے. دی اکانومسٹ نے انے تازہ شمارے کے سرورق کی تصویر میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ احتجاج کے دوران فلسطینی پرچم لہرایا گیا تھا، تاہم اس میگزین کا فوٹوگرافر موقع پر موجود نہیں تھا اسلئے سرورق کی تصویر میں فلسطینی پرچم نظر نہیں آرہا ہے۔