فیکٹ چیک: اترپردیش میں نابالغ لڑکی کے ساتھ بابا، چاچا اور دادا کی طرف سے مبینہ جنسی استحصال کی پرانی خبر کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر کیا جارہا ہے وائرل
ان سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اترپردیش میں نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے اس کے بابا، چاچا اور دادا مسلمان ہیں۔لیکن جانچ پڑتال سے واضح ہوگیا کہ ملزمین، کا مسلم طبقہ سے تعلق نہیں۔

Claim :
یو پی میں نابالغ لڑکی کی عصمت دری کرنے والے بابا، چاچا اور دادا مسلم ہیںFact :
اجتماعی عصمت دری کے ملزمین مسلم نہیں بلکہ اکثریتی طبقہ کے ہیں
چند دن پہلے بریلی جنکشن ریلوے اسٹیشن کے نزدیک یارڈ کے پاس ایک 14 سالہ لڑکی کے ساتھ نامعلوم شخص یا افراد نے جنسی زیادتی کی ۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب لڑکی اپنے باپ کو ڈھونڈنے کے لیے چلتی ہوئی ٹرین سے اتر گئی جو کھانا خریدنے کے لیے باہر گئے تھے۔ ریلوے پولیس نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی ہو، کیونکہ نابالغ لڑکی کی حالت، جو فی الحال ہسپتال میں ہے، تشویشناک ہے۔
پولیس کے مطابق، لڑکی اور اس کے گھر والے اتراکھنڈ میں ایک مندر کے دورے کے بعد اتر پردیش کے ضلع ایٹہ لوٹ رہے تھے۔ جب ٹرین بریلی جنکشن پہنچی تو متاثرہ لڑکی کا والد کھانے پانی کی چیزیں خریدنے کے لیے ٹرین سے نیچے اترا، اورجب وہ ٹرین کی طرف لوٹ رہا تھا تو ٹرین پلیٹ فارم سے نکل رہی تھی اور وہ چلتی ٹرین میں چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے نیچے گرگیا۔
جب لڑکی نے اپنے والد کو ٹرین کے ڈبے میں نہیں پایا تو وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے چلتی ٹرین سے کود گئی لیکن تب تک ٹرین پلیٹ فارم سے آگے نکل چکی تھی۔ پاوں اور ہاتھوں میں چوٹ لگنے کے باوجود جب وہ لڑکی پلیٹ فارم کی طرف چلنے لگی تو پٹری کے قریب موجود کچھ نامعلوم افراد نے اسے یارڈ کے قریب پکڑ لیا اور اس کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کی۔
اس درمیان سوشل میڈیا پر 'دی للن ٹاپ' نامی نیوز پورٹل کے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کو بڑے پیمانے پر شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا جارہا ہیکہ اترپردیش میں نابالغ لڑکی کی مبینہ عصمت دری کرکے اسے حاملہ کرنے والے خود اسکے گھر والے ہیں اور یہ تمام مسلم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
حالیہ واقعہ بتاکر وائرل کئے جارہے 'دی للن ٹاپ' کے پوسٹ میں ہندی میں لکھا ہے۔ "یو پی۔ نابالغ سے ریپ کے الزام میں پایا، چاچا اور دادا گرفتار، دو مہینے کی حاملہ ہوگئی لڑکی۔ "
اس پوسٹ کو شئیر کرتے ہوئے چند سوشل میڈیا صارفین لکھتے ہیں:
" इसे कहते खबरों का खतना करना दल्लन टॉप ने बड़ी चालाकी से यहाँ पापा कहकर कितनी चालाकी से बात को घुमा रहा है यही खबर का स्क्रीन शॉट लेकर शांति दूत वायरल कर रहे है कि देखो सनातिनियो के संस्कार। जबकि रेपिस्ट 5 वक्त के नमाजी है। ऐसी मीडिया के लिए 2 शब्द। "
ترجمہ: "اسے کہتے ہیں خبروں کی ختنہ کرنا، ڈلّن ٹاپ نے یہاں Papa کہہ کر کتنی چالاکی سے بات کو گھما رہا ہے، یہی خبر کا اسکرین شاٹ لے کر کچھ امن پسند [یعنی مسلم صارفین ] اسے یہ کہتے ہوئے وائرل کر رہے ہیں کہ دیکھو سناتانیوں کے سنسکار، جبکہ ریپ کرنے والے پکے مسلمان ہیں۔ ایسے میڈیا کے لیے 2 الفاظ۔۔"
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے جانچ پڑتال کے دوران پایا کہ ایک شرمناک واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے اسے فرضی دعوے کے ساتھ شئیر کیا جارہا ہے۔
چونکہ وائرل پوسٹس میں 'دی للن ٹاپ' کے پوسٹ کو کراپ کرکے اسکی تاریخ اور وقت ہٹادیا گیا اسلئے ہم نے سب سے یہ پتہ کرنے کی کوشش کی کہ کیا یہ حالیہ واقعہ ہے یا پھر پرانی رپورٹ۔ گوگل سرچ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ واقعہ 28 دسمبر 2024 کو اترپردیش کے آرئیا ضلع میں پیش آیا تھا۔
'للن ٹاپ' کے مضمون میں بتایا گیا ہیکہ " اتر پردیش کے ضلع آرئیا میں 26 دسمبر کو پولیس تھانے میں پاکسو ایکٹ کے تحت درج ایک شکایت میں ایک نابالغ لڑکی نے اپنے والد، چچا اور دادا پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ وہ دو ماہ سے حاملہ ہے۔ پولیس نے متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے اور تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔"
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہیکہ۔ "پولیس کے مطابق، متاثرہ لڑکی نے دعویٰ کیا کہ اس کے گھر والے اس کے ساتھ مسلسل جنسی زیادتی کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے چند ماہ قبل وہ گھر چھوڑ کر اپنی والدہ کے ساتھ دوسری ریاست چلی گئ اور وہیں رہ رہی تھی۔ متاثرہ نے یہ بھی بتایا کیا کہ گھر والوں نے پہلے اسکی ماں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ چند دن بعد متاثرہ کے والد اور چچا انکے پاس پہنچ گئے اور ان دونوں کو اپنے ساتھ واپس گاوں لے آئے۔"
" پولیس نے یہ بھی بتایا کہ گاؤں لوٹنے کے کچھ دن بعد لڑکی کی ماں کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد تینوں ملزمین نے لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا شروع کردیا۔ حال ہی میں لڑکی نے ایک خاتون رشتہ دار کو اپنی آپ بیتی سنائی جس کے بعد یہ شکایت درج کرائی گئی۔"
اس واقعہ کو ہندی اور انگریزی زبان کے مخلتف میڈیا آوٹ لیٹ نے رپورٹ کیا ہے۔ دی ویک، انڈیا ٹوڈے، اور دی ٹیلی گراف
ان میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہیکہ "پولیس کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آلوک مشرا نے بتایا کہ لڑکی ایک خاتون رشتہ دار کے ساتھ مقامی بیدھونا پولیس اسٹیشن گئی تھی جہاں اس نے شکایت درج کرائی، جس کے بعد ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔"
اس جانکاری کی مدد سے جب ہم نے سوشل میڈیا پر سرچ کیا تو ہمیں پولیس افسر آلوک مشرا کا بیان اور ملزمین کی تصاویر آرئیا پولیس کے ایکس اکاونٹ پر ملے۔
ان تمام رپورٹس میں کہیں بھی ملزمین کے مذہب سے متعلق یا انکے نام ظاہر نہیں کئے گئے ہیں۔ پھر ہم نے مزید سرچ کیا تو ہمیں دینیک بھاسکر کی رپورٹ ملی جس میں ملزمین کی برادری سے متعلق اشارہ دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر یہ واضح ہوگیا کہ نابالغ لڑکی کے ساتھ گھر والوں کی طرف سے جنسی استحصال کے افسوس ناک واقعہ کے ملزمین کو مسلم طبقے سے جوڑ کر جھوٹے دعوے کے ساتھ اس پرانی خبر کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر پھیلایا جارہا ہے۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ فرضی ثابت ہوا.