Fact Check: اشتعال انگیز تقریر کا ویڈیو اترپردیش کے غازی پورکا نہیں بنگلہ دیش کا ہے

پاکستانی اسلامی اسکالر حبیب اللہ ارمانی کی بنگلہ دیش میں قابل اعتراض تقریر کے ویڈیو کو گمراہ کن دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے کہ یہ اترپردیش کے غازی پور کا ویڈیو ہے

Update: 2024-10-15 16:56 GMT

حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں اقلیتی ہندووں پر مظالم کے کئی ایک ویڈیو بھارت میں خوب وائرل ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ویڈیوس میں وہاں کے اکثریتی طبقہ کی جانب سے اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے کے بھی ویڈیو منظرعام پر آئے تھے۔

اس بیچ، غازی پور کا ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے جس میں ایک نوجوان اسلامی اسکالرکو فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کے ساتھ شامل پوسٹ میں ہندی میں دعویٰ کیا گیا ہیکہ یہ عالم بھارت کے ہیں اور ویڈیو اترپردیش کے غازی پور کا ہے۔

“याद रखना पंडित और हिन्दुओं, एक तरफ़ पाकिस्तान है और दूसरी तरफ़ बांग्लादेश, तुम्हारे मुल्क में घुसकर तुम्हारी गर्दन काट के कुत्तों को खिला देंगे”

ये भाषण ग़ाज़ीपुर में दिया जा रहा है

ترجمہ: "یاد رکھنا پنڈت اور ہندووں، ایک طرف پاکستان ہے اور دوسری طرف بنگلہ دیش۔ تمہارے ملک میں گھس کر تمہاری گردن کاٹ کر کتّوں کو کھلادیں گے۔ یہ تقریر غازی پور میں دی جارہی ہے۔"

اس ویڈیو کو سب سے پہلے یتی نرسنگھا نند سرسوتی نے اپنے ایکس اکاونٹ پر شئیر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 'کیا غازی پور بیرون ملک میں ہے۔" اور پھر انہوں نے غازپور پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے ویڈیو میں دکھائے گئے شخص کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔


فیکٹ چیک:

تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم اپنے تحقیق کے دوران سوشل میڈیا پوسٹ میں کئے گئے دعوے کو گمراہ کن پایا۔

ہم نے اس دعوے کی تحقیق کا آغاز کرنے سے قبل، اس ویڈیو کو غور سے سنا اور اسکرین پر نظر آنے والے لوگو کا بغور مشاہدہ کیا۔ بانگلہ زبان کے لوگو کی تحریر میں 'نوریر پرودیپ' پایا گیا۔

اس جانکاری کی مدد سے گوگل سرچ کرنے پر ہمیں [ নূরের প্রদীপ-Nurer Prodip ] کا فیس بک پیج ملا۔ بنگلہ دیش سے چلائے جارہے اس پیج کو دو لاکھ 27 ہزار فالوورس ہیں۔

اس پیج پر ہمیں وائرل ویڈیو کا اوریجنل ویڈیو ملا جو 30 ستمبر کو پوسٹ کیا گیا تھا جس کا متن یوں ہے: "پاکستان کے نوجوان مقرر مولانا حبیب اللہ اسامہ ارمانی نے توہین اسلام پر بھارت کو سخت انتباہ دیا۔" اس ویڈیو کے تھمب نیل میں ہم مولانا کے علاوہ مہاراشٹرا کے سوامی رام گیری مہاراج اور متنازعہ بی جے پی ایم ایل اے نتیش رانے کی تصویریں شامل کی گئی ہیں۔

Full View

رامگیری نے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وصلعم کی شان میں گستاخانہ تبصرہ کیا تھا جس کے بعد مسلم برادری نے شدید احتجاج کیا اور پولیس نے ناسک اور چھتراپتی سامبھاجی نگر میں انکے خلاف مقدمے درج کئے تھے۔ دوسری جانب نتیش رانے نے سوامی کی سوامی کی حمایت کرتے ہوئے اقلیتی برادری کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اپنی خیر چاہتے ہیں تو رامگیری کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہیں۔

بھارت میں اترپردیش کے غازی پور کی طرح بنگلہ دیش میں بھی غازی پور شہر ہے جہاں ایک اسلامی اجتماع میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وصلعم کے عنوان پر تقریر میں اسامہ نے ان دو بھارتی شخصیتوں کو سخت الفاظ میں انتباہ دیا ہے۔

اس تقریر کے وائرل ہونے کے بعد کئی سوشل میڈیا صارفین اترپردیش کے غازی پور کی پولیس کو ایکس پلیٹ فارم پر ٹیگ کرنے لگے۔ پولیس نے تحقیق کے بعد ایک ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ " سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو جس میں ایک مولانا کو مذہب کے خلاف بیان دیتے ہوئے دکھایا جارہا ہے اور اسے اترپردیش کے غازی پور کا بتاکر وائرل کیا جارہا ہے۔ تاہم جانچ کے بعد پتہ چلا کہ یہ ویڈیو بنگلہ دیش کا ہے۔"

پھر ہم نے حبیب اللہ اسامہ ارمانی کے نام سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں ان کا ایک آفیشئل فیس بک پیج ملا۔ اس پیج کے تعرف میں انکے والد کا نام بھی لکھا ہوا ملا' کہ وہ صاحبزاده ہیں مولانا نعمان ارمان مدنی کے اور کراچی میں مقیم ہیں۔

انہوں نے اپنے آفیشئل فیس بک پیج پر اپنی متنازعہ تقریر کو شئیر کرتے ہوئے لکھا : #بھارت والے ہم کو #ڈراتے ہیں مگر یاد رکھنا!! #بنگل_دیش کی سر زمین پر خطاب

Full View

پاکستان کے 'درس قرآن' فیس بک پیج پر بنگلہ دیش کے جلسے کی تصویروں کے ساتھ کئے گئَے پوسٹ میں لکھا گیا ہے" بنگلہ دیش کے ایک شہر ضلع نواں خالی میں سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانفرنس میں درس قرآن ڈاٹ کام کے مولانا حافظ حبیب اللہ ارمانی کا خطاب۔" 

Full View

ان تمام حقائق اور جانچ پڑتال کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ مذہبی منافرت بڑھانے والا یہ ویڈیو اترپردیش کے غازی پور کا نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے غازی ہور شہر کا ہے، تاہم اس ویڈیو میں یو پی کے شہر کا دیا گیا حوالہ گمراہ کن ہے۔

Claim :  نوجوان اسلامی اسکالر کی قابل اعتراض تقریر کا ویڈیو اترپردیش کے غازی پور کا ہے
Claimed By :  X Users
Fact Check :  Misleading
Tags:    

Similar News