Fact Check:یو پی کے مرادآباد میں خاتون کانسٹبل کی مارپیٹ کا ویڈیو فرقہ وارانہ دعوے کے ساتھ وائرل
وائرل ویڈیو میں خاتون کانسٹبل کے ساتھ بدسلوکی کے واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر سوشل میڈیا پر گمراہ کن دعویٰ کے ساتھ شئیر کیا جارہا ہے۔
چند مہینوں قبل، نیشنل کمیشن برائے خواتین [ این سی ڈبلیو ] نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ رواں سال جون تک کمیشن کو جتنی شکایتیں موصول ہوئی ہیں ان میں اترپردیش سرفہرست ہے۔ دہلی دوسرے اور مہاراشٹرا تیسرے مقام پر ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہیکہ کمیشن کو شورش زدہ منی ہور سے 'خواتین کے خلاف جرائم' کی صرف تین شکایتیں ملی ہیں۔
اس سال جون تک این سی ڈبلیو کو جملہ 12 ہزار 648 شکایتیں موصول ہوئی جن میں اکیلے اترپردیش سے 6 ہزار 492 شکایتیں ملی ہیں۔ اس پس منظر میں سوشل میڈیا پر شمالی ریاست کا ایک سی سی ٹی وی فوٹیج شئیر کیا گیا ہے۔ مرادآباد کے اس فوٹیج میں ایک بائیکر کو راہ چلتی خاتون سے کچھ پوچھتے اور پھر اس پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین اس ویڈیو کو شئیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "مرادآباد میں ایک ہندو پولیس کانسٹبل خاتون کو عرفان نامی ایک نوجوان ہراساں اور اسکی پٹائی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر وہ یونیفارم پہنی عہدیدار کو اتنی بری طرح پیٹ سکتا ہے تو سوچو کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرسکتا ہے۔" پھر یو پی اور مرادآباد پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے درخوات کی گئی کہ براہ کرم اس دہشت گرد کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
دعویٰ:
In Moradabad, a Hindu woman who is in UP police was brutally harassed, assaulted, and beaten by a Muslim boy named Irfan.
If they dare to attack someone in uniform, imagine what they might do to you!
@Uppolice
&
@moradabadpolice
Please take strict action against this terrorist.
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال کے دوران پایا کہ وائرل پوسٹ میں صارف نے گمراہ کن دعویٰ کیا ہے۔
سب سے پہلے ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کا استعمال کرتے ہوئے اس ویڈیو کے کلیدی فریمس کی مدد سے سرچ کیا تو ہمیں اس قسم کے کچھ وائرل دعوے اور نیوز آرٹیکلس ملے۔
ہندی اخبار جاگرن کے مطابق، یہ معاملہ 30 نومبر کو پیش آیا تھا۔ خاتون کانسٹبل نے بتایا کہ وہ قدیم آر ٹی او کے قریب واقع مکان مالک کے گھر جا رہی تھی کہ ایک نوجوان ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگا۔ اس سلسلے میں پولیس نے 10 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جن میں چار ملزمین کے نام درج ہیں۔
ان خبر آفیشئل یوٹیوب چینل کے مطابق، خاتون کانسٹبل کی شناخت 'امرین' کے طور ہوئی ہے۔ اس ویڈیو کو 3.20 کے بعد سے دیکھیں۔
بزنس ٹوڈے کے مطابق، وائرل ویڈیو اترپردیش کے مرادآباد کا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک بائیک سوار شخص دن دہاڑے راہ چلتی خاتون کانسٹبل [سیول لباس پہنی] کو چھیڑتا ہے اور پھر جبرن اسے بوسہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر ایک بوڑھا شخص خاتون کو اسے سے بچانے کی کوشش کرتے ہے۔ تاہم، وہ نوجوان پھر سے خاتون کو لات اور گھوںسے مارتا ہے۔
سماج وادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو نے اس ویڈیو کو اپنے ایکس ہینڈل پر شئیر کرتے ہوئے لکھا: "یوپی میں خواتین کتنی محفوظ ہیں ثبوت دیکھ لیجئے۔
یہ تصویر مرادآباد کی ہے، جہاں ایک نوجوان نے ایک خاتون کانسٹیبل کے ساتھ سرعام بدسلوکی کی اور جب اس نے مزاحمت کی تو اس نے نوجوان نے اسکے ساتھ مارپیٹ کی۔ ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔"
دی فری پریس جرنل نامی انگریزی نیوز پورٹل کے مطابق، مرادآباد کی پولیس نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے متاثرہ کانسٹبل 'امرین' کی شکایت پر ایک مقدمی درج کرلیا اور قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔ پولیس اہلکار نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاملے پولیس اسٹیشن سیول لائنس کے دائرہ کار میں پیش آیا ہے۔ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور کارروائی جاری ہے۔
ان میڈیا رپورٹس کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہیکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھائی گئی متاثرہ خاتون کانسٹبل کا نام 'امرین' ہے اور وہ ایک مسلم خاتون ہیں۔ وائرل پوسٹ میں انہیں ہندو بتاکر اور مسلم حملہ آور کا حوالہ دیکر اس ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا، وائرل ویڈیو گمراہ کن پایا گیا۔