Fact Check: آسام کے احتجاج کا پرانا ویڈیو بنگلہ دیشی مسلمانوں کے الگ دیش کی مانگ کے دعوے کے ساتھ دوبارہ وائرل

سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک ایک سات سال پرانا ویڈیو خوب وائرل ہورہا ہے جس میں دعویٰ کیا جارہا ہیکہ آسام میں آباد بنگلہ دیشی مسلمان علاحیدہ ملک کا مطالبہ کررہے ہیں۔

Update: 2024-10-19 14:32 GMT

آسام میں آزادی سے پہلے سے لسانی طور لوگوں میں تفریق پائی جاتی ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے مسلمانوں کی شناخت کو لیکر کی جارہی سیاست کے پیش نظر عوام کی رائے ہیکہ بیشتر مسلمان مقامی نہیں اور مشرقی پاکستان جو بعد میں بنگلہ دیش بن گیا وہاں سے نقل مکانی کرکے ریاست میں بس گئے ہیں۔

اس شمال مشرقی ریاست میں بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کو 'میاں' مسلمان کہا جاتا ہے۔ ہیمانتا بسوا شرما کی حکومت میں 'میاں' مسلم اور مقامی مسلمانوں میں واضح طور پر تفریق دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے قبل، وزیر اعلیٰ ہیمانتا نے کہا تھا کہ بی جے پی کو اگلے 10 سال تک 'میاں' برادری سے کوئِی ووٹ نہیں چاہئے۔ اکتوبر کے اوائل میں ریاستی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ مقامی مسلمانوں کے سماجی معاشی حالات کا پتہ لگانے کیلئے ایک سروے کرائیگی۔

اس پس منظر میں سوشل میڈیا پر آسام کے مسلمانوں کی احتجاجی ریلی کا ایک غیرمیعاری ویڈیو وائرل ہورہا ہے جس می ں دعویٰ کیا گیا ہیکہ ریاست میں مقیم بنگلہ دیشی میاں مسلمانوں نے علیحدہ ملک کا مطالبہ کردیا ہے۔ کیپشن میں بھِی لکھا ہیکہ احتجاجیوں نے 'آزادی' کے نعرے بھی لگائے۔

دعویٰ:

असम में बांग्लादेशी मिया मुस्लिमों के एक समूह ने एक रैली निकालकर अलग देश की मांग की

उन्होंने 'आज़ादी' के नारे भी लगाए

असम पुलिस द्वारा उनका तत्काल उपचार किया गया

बांग्लादेशी मिया मुस्लिम समूह के अधिकांश लोग अपने 'आजादी नारे' के साथ बिना सिर वाले मुर्गे की तरह वापस भाग गए।

ترجمہ: "آسام میں بنگلہ دیشی میاں مسلمانوں کے ایک گروپ نے الگ دیش کا مطالبہ کرتے ہوئے ریلی نکالی۔ انہوں نے 'آزادی' کے نعرے بھی لگائے۔ آسام کی پولیس نے احتجاجیوں پرلاٹھی چارج کیا۔ جس کے بعد انہیں احتجاج چھوڑ کر الٹے پاوں بھاگنا پڑا۔"



فیکٹ چیک:

تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال کے دوران پایا کہ وائرل وِیڈیو میں کیا گیا دعویٰ فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے شئیر کیا جارہا ہے۔

سب سے پہلے ہم نے وائرل ویڈیو سے حاصل کردہ کلیدی فریمس کا گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کی مدد سے سرچ کیا تو ہمیں 2 جولائی 2017 کا 'سب رنگ' کا آرٹیکل ملا جس میں وائرل ویڈیو کے فریم سے مماثل تصویر شامل کی گئی ہے اور اسکی سرخی ہے، 'آسام کے گول پاڑہ میں مسلم نوجوان کی پولیس فائرنگ میں موت'۔

اس رپورٹ میں 'نیوز کلک' کے حوالے سے بیان کیا گیا ہیکہ " آسام کے ضلع گول پاڑہ کے کھربوجہ گاوں میں احتجاجیوں پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں 22 سالہ یعقوب علی نامی مسلم نوجوان جاں بحق ہوگیا۔"

اس خبر میں مزید بتایا گیا ہیکہ ایڈوکیٹ نظرالاسلام کی قیادت میں مقامی مسلمانوں نے ڈی [ڈاوٹ فل یعنی مشتبہ] ووٹروں کی بارڈر پولیس اینڈ فارینرس ٹریبونلس کے حکام کی جناب سے مبینہ ہراسانی کے خلاف قومی شاہراہ بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک احتجاجی ریلی نکالی۔ قومی شاہراہ 37 کی طرف بڑھتی ریلی پر پہلے پولیس نے لاٹھی چارج کی اور پھر حالات کو قابو پانے کیلئَے ہوا میکں فائرنگ کی اور نتیجے میں ایک نوجوان کی موت ہوگئی۔ اس فائرنگ کی خبر تقریبا میڈیا کے اداروں میں شائع کی گئی تھی۔

کوکراجھار ضلع کے کھوٹا ماری میں غیر قانونی ایمگرنٹس کو ڈی۔ ووٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آسام میں۔ D-voter، ووٹروں کی ایک قسم ہے جنہیں بھارت کی شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے حق رائے دہی سے محروم کردیا ہے۔

Full View

ٹائمس آف ڈھوبری نامی یوٹیوب چینل نے بھی اس احتجاجی ریلی کا ویڈیو پوسٹ کیا ہے۔
Full View
ان حقائق اور میڈیا رپورٹس سے واضح ہوجاتا ہیکہ 'بنگلہ دیشی میاں' مسلمان 'علاحیدہ' ملک کیلئے نہیں بلکہ بارڈر پولیس اینڈ فارینرس ٹریبونلس کے حکام کی جناب سے مبینہ ہراسانی کے خلاف مظاہرہ کررہے تھَے۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا گیا۔
Claim :  آسام میں بنگلہ دیشی 'میاں' مسلمانوں نے الگ دیش کی مانگ کی
Claimed By :  Social Media Users
Fact Check :  Misleading
Tags:    

Similar News