فیکٹ چیک: راشٹراپتی بھون میں صرف مسجد ہے، مندر نہیں؟ جانئے پوری حقیقت
سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ راشٹراپتی بھون میں صرف مسجد ہے اور کوئی مندر نہیں۔ تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس دعوے کی جانچ کی تو پتہ چلا کہ احاطے میں مسجد کے علاوہ پی بی جی نامی مندر بھی واقع ہے;

دنیا بھر میں مسلمانوں نے پوری مذہبی عقیدت کے ساتھ عید الفطر منائی۔ ہمارے ملک بھارت میں بھی ماہ رمضان المبارک کے ختم ہونے کے بعد عید منائی گئی۔ ماہ صیام میں مسلمانوں نے نہ صرف روزے رکھے بلکہ ملک کی تمام مساجد میں تراویح اور قیام الیل کا اہتمام بھی کیا گیا۔
اس درمیان راشٹراپتی بھون کی مسجد میں صدرجمہوریہ دروپدی مورمو کی حاضری کا ویڈیو شئیر کرتے ہوئے تعجب ظاہر کیا جارہا ہیکہ 'راشٹراپتی بھون، دہلی میں مسجد ہے اور نہ کوئی مندر یا نہ گرجاگھر۔ گوگل سرچ کے مطابق، 1950 میں مسلم عملے کیلئے راشٹراپتی بھون میں مسجد کی تعمیر کی گئِ تھی۔'
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔ یہ دعویٰ یہاں ، یہاں اور یہاں بھی کیا گیا ہے۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔

فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم اپنی جانچ پڑتال کے دوران پایا کہ راشٹراپتی بھون میں صرف مسجد کی تعمیر کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
اس وائرل دعوے کی جانچ پڑتال کا آغاز کرتے ہوئے ہم نے مناسب کیورڈس کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں 24 مارچ 2024 کا 'دی پیٹریاٹ' نامی ویب پورٹل پر ایک آرٹیکل ملا۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہیکہ راشٹراپتی بھون میں ایک مسجد ہے جس میں کئی دہائیوں سے ایک روایت چلی آرہی ہے جس کے تحت صدر جمہوریہ ہند ماہ رمضان المبارک میں احاطے میں موجود مسجد میں ختم شریف یعنی تراویح میں قرآن مجید کی تکمیل کے موقع پر شرکت کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا برطانوی معمار ایڈوین لوٹئینس نے جب 1931 میں وائسرائے ہاوز [راشٹراپتی بھون کا پرانا نام] تعمیر کیا تو اس میں کوئی عبادت گاہ نہیں بنائی کیوں کہ پڑوس میں پہلے سے گرجاگھر اور گورودوارہ موجود تھے۔ لیکن، 1950 کی دہائی میں پہلے صدرجمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے ہندو اور مسلم ملازمین کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مندر اور مسجد بنوائی۔
پھر ہم نے یوٹیوب پر سرچ کیا تو ہمیں 'آواز دی وائس' کے چینل پر ایک تفصیلی رپورٹ ملی جس میں بتایا گیا کہ 'ختم شریف' کی تقریب میں تمام صدورجمہوریہ بشمول مسلم ذاکرحسین، فخرالدین علی احمد اور اے پی جے عبدالکلام نے بھی شرکت کی۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان صدور نے مسجد کے امام صاحب کو پگڑی اور تحائف دینے کی روایت کو بھی برقرار رکھا۔
مزید سرچ کرنے پر 'سلام ٹی وی' کا ایک ٹوئیٹ ملا جس میں وائرل فوٹو شامل کرتے ہوئے بتایا گیا ہیکہ 'راشٹراپتی بھون کی مسجد میں قرآن پاک مکمل ہونے پر صدرجمہوریہ مورمو نے شرکت کی۔'
وائرل پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہیکہ راشٹراپتی بھون میں نہ مندر ہے اور نہ چرچ۔ ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہیکہ راشڑاپتی بھون کے برطانوی معمار نے اسلئے چرچ نہیں بنایا کیوں کہ یہ پہلے سے وائسرائے ہاوز کے قریب موجود تھا۔
'آواز ۔ دی وائس' کے ویڈیو میں بتایا گیا ہیکہ راشٹراپتی بھون میں ایک مندر بھی واقع ہے۔ اس ویڈیو میں سابق صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی کی ایک تصویر شامل کی گئی ہے جس میں انہیں راشٹراپتی بھون میں واقع مندر میں پوجا کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کی مدد سے جب ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں 'پریسی ڈنٹ آف انڈیا' نامی آفیشئل یوٹیوب چینل پر پرنب مکھرجی کے 7 مارچ 2016 کو مہاشیوراتری کے موقع پر پریسی ڈینشئیل اسٹیٹ میں واقع 'پی بی جی مندر' کے دورے کا ویڈیو ملا۔
گذشتہ سال صدر جمہوریہ دروپدی مورمو نے بھی اس مندر کا دورہ کیا تھا۔ ان کے دورے کی تصویریں یہاں دیکھِی جاسکتی ہیں۔
جانچ پڑتال اور میڈیا رپورٹس کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ راشٹراپتی بھون میں نہ صرف مسجد بلکہ ایک ہندو مندر بھی ہے جس کا نام ' ریجی منٹل پی بی جی یعنی پریسی ڈنٹس باڈی گارڈس مندر ہے'۔ لہذا، وائرل ویڈیو میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ثابت ہوا۔