Fact Check: بنگلہ دیش میں توہین رسات کے الزام میں ماب لنچنگ میں ہندو نوجوان کی موت؟ کیا ہے سچائی
بنگلہ دیش میں توہین رسات کے الزام میں ہندو نوجوان کی موت کے گمراہ کن دعوے کے ساتھ ویڈیو وائرل
بنگلہ دیش کی عبوری حکموت کے مشیر اعلیٰ محمد یونس نے کہا کہ انکے ملک میں اقلیتی ہندووں پرحملوں کے واقعات کو بڑا چڑھاکر پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی [پریس ٹرسٹ آف انڈیا] کو دئے گئے انٹرویو میں واضح کیا کہ ان واقعات میں 'فرقہ وارانہ کم سیاسی عنصر' زیادہ شامل ہے۔
اس بیچ، سوشل میڈیا پرایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے جس میں دعویٰ کیا جارہا ہیکہ بنگلہ دیش میں اسلام پسند مشتعل ہجوم نے ایک ہندو لڑکے کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔
وائرل پوسٹ میں بتایا گیا ہیکہ اوتسو مونڈل نامی نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت یعنی یغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کئے تھے۔
ہیومن رائیٹس کانگریس فار بنگلہ دیش نامی X اکاونٹ پر کئے گئے پوسٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہیکہ بغیر کسی فارینسک شواہد کے پولیس اور فوج کی موجودگی میں پولیس تھانے میں ہندو لڑکے کی ماب لنچنگ کی گئی۔
اس ویڈیو کو یہاں شئیر نہیں کیا جاسکتا، اسلئے ہم اس ٹوئیٹ کا اسکرین شئیر کررہے ہیں۔
ایک اور ویڈیو کے کیپشن میں لکھا گیا ہے:
“Sir, please give him to us for 10 minutes. We assure you that he will be safe. We just want to give him a garland of shoes and we want him to apologise to us.”
The police officer didn't allow
Later, the police handed him over to the radical islamic mob, as it seems
ترجمہ: "سر اسے [اوتسو مونڈل] ہمارے حوالے کردیجئے۔ ہم آپ کو اسکی حفاظت کا یقین دلاتے ہیں۔ ہم اسے صرف جوتوں کا ہار پہنا کر اسے معافی مانگنے کیلئے مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ پولیس افسر نے مونڈل کو انکے حوالے کرنے سے انکار کردیا، ایسا لگتا ہیکہ کچھ دیر بعد پولیس اسے مسلم ہجوم کے حوالے کردیا۔"
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی تحقیق کے دوران پایا کہ یہ دعویٰ گمراہ کن ہے کیونکہ ہجومی تشدد میں اوتسو مونڈل صرف شدید زخمی ہوا ہے۔
ہم نے جانچ پڑتال کا آغاز 'اوتسو مونڈل ماب لنچنگ' کے کیورڈس سے کی۔ گوگل سرچ کے دوران ہمیں ملے جلے نتائج ملے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں بنگلہ دیش میں ہجومی تشدد میں اوتسو مونڈل کی موت کا ذکر ہے جبکہ دیگر رپورٹس میں اسکے شدید طور پر زخمی ہونے کا کہا گیا ہے۔
منٹ نیوز پورٹل نے ہیومن رائیٹس کانگریس فار بنگلہ دیش کے ایکس پوسٹ کے حوالے سے خبر دی ہیکہ 'اسلام پسندوں نے بنگلہ دیش کے کھلنا شہر میں اوتسو مونڈل نامی ہندو نوجوان اور کالج کے طالب علم کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔' ساتھ میں یہ بھی کہا ہیکہ ادارہ اس تازہ خبر کی آزادانہ توثیق نہیں کرسکا۔
مزید تحقیق کرنے پر ہمیں ڈھاکہ ٹریبیون کا آرٹیکل ملا جس میں بتایا گیا ہیکہ فیس بک پر پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ تبصرہ کرنے پر مشتعل ہجوم نے کھلنا شہر میں ایک کالج کے طالب علم کو بے رحمی سے پیٹا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ واقعہ چہارشنبہ کی رات 11:45 بجے پیش آیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے حکام نے مسجدوں کے لاوڈ اسپیکروں سے نوجوان کی مبینہ موت کا اعلان کروایا۔
جمعرات کی صبح حکام نے تصدیق کی کہ اٹھارہ سالہ مونڈل زندہ ہے اور زیر علاج ہے۔ تاہم، سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے اسپتال کا پتہ بتانے سے انکار کردیا۔
ٹائمس آف انڈیا نے بھی اس واقعہ کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ اوتسو کا علاج بنگلہ دیش فوج کی نگرانی میں نامعلوم اسپتال میں جاری ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہے۔ اس بیچ ڈائریکٹوریٹ آف انٹر سروسز پبلک ریلیشنس نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اس پورے واقعہ کی تفصیل بیان کی اور کہا کہ اتسو کے خلاف مذہی احساسا مجروح کرنے سے متعلق مقدمہ درج کیا گیا ہے، اور صحت یابی جے بعد اوتسو کو حکام کے حوالے کیا جائیگا۔ پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہیکہ بنگلہ دیش کی فوج ماورائے عدالت ہلاکتوں کی روک تھام اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کی پابند ہے۔
لہذا، تحقیق سے ثابت ہوا کہ وائرل پوسٹ اور بعض میڈیا کی خبروں میں ہجومی تشدد میں اوتسو مونڈل کی موت کی خبر فرضی اور گمراہ کن پائی گئی۔ بنگلہ دیش کے حکام نے اوتسوکے خلاف تشدد کی کارروائی کا اعتراف کیا تاہم پٹائی میں اسکی موت کی خبر کی تردید کی۔