Fact Check: بی ایچ یو نے نیتا امبانی کی بطور وزیٹنگ پروفیسر تقرری کا کوئی حکم نہیں کیا جاری
ایک پرانے اخبار کا تراشہ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کر رہا ہے جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مشہور صنعت کاروں مکیش امبانی اور گوتم اڈانی کی بیویوں کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تقرری نے تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین اورایم ڈی مکیش امبانی کی اہلیہ نیتا امبانی نے اپنی 60 ویں سالگرہ منائی۔ وہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے رکن کے طور پر منتخب ہونے والی پہلی بھارتی کاروباری خاتون بن گئی ہیں
اڈانی فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن پریتی اڈانی بھی ایک بااثر خاتون ہیں۔ ان دو ممتازخواتین کے ساتھ ساتھ لکشمی متل کی بیوی اوشا متل کا نام بھی بااثر خواتین میں شامل کیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پرنیتا امبانی اور پریتی اڈانی کے بارے میں ایک پوسٹ دوبارہ وائرل ہو رہا ہے۔ اس وائرل خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی (BHU) میں وزیٹنگ پروفیسر کے عہدے کے لئے امبانی اور اڈانی کی بیویوں کے درمیان تگ و دو چل رہی ہے۔
تاہم سوشل میڈیا صارفین نے پریتی اڈانی اور اوشا متل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف نیتا امبانی پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، اسلئے نیتا امبانی پرآپ کو متعدد سوشل میڈِیا پوسٹس اور سنی سنائی باتیں پڑھنے کو ملیں گی۔
ہندی میں کیپشن کے ساتھ وائرل پوسٹ: "यही दिखना और बिकना बाक़ी रह गया था .अब @DrLaxman_Yadav जी जैसे शिक्षक की ज़रूरत नहीं होगी. नालायक छात्र को समझ नहीं है .पहले किसान को किसान बिल और जवान को orop की समझ नहीं थी“
متن میں کئے گئے دعوی کا ترجمہ: "اب یہی دیکھنا اور بیچنا باقی رہ گیا تھا۔ اب ڈاکٹر لکشمن یادو جی @DrLaxman جیسے استاد کی ضرورت نہیں رہے گی، نااہل طالب علم کو سمجھ نہیں آتا ہے، پہلے کسان کو تین زرعی قوانین کے بارے میں سمجھ نہیں آتا تھا اور سپاہیو٘ کو ایک رینک ایک پینشن (OROP) کے بارے میں کوئی سمجھ نہیں تھی۔
ایکس (ٹویٹر) صارف نے پوسٹ کے ساتھ ایک اخبار کا تراشہ بھی شیئر کیا۔
فیس بک پر چند صارفین نے بھی اخبار کے تراشوں کو مختلف کیپشن کے ساتھ شیئر کیا۔
فیکٹ چیک:
وائرل دعویٰ گمراہ کن ہے۔ سوشل میڈیا پر کی جارہی وائرل تصویر پرانی ہے۔
اس معاملے کی تحقیق کیلئے سب سے پہلے ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کا استعمال کرتے ہوئے وائرل تصویر کی جانچ پڑتال کی تو ہمیں پتہ چلا کہ کئِ سوشل میڈیا صارفین نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ہینڈلس پر اس خبر کو پوسٹ کیا ہے۔
پھر ہم نے متعلقہ کلیدی الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے نیتا امبانی، پریتی اڈانی اور بی ایچ یو کے بارے میں بھی سرچ کیا توہمیں نیوز ویب سائٹس پر پوسٹ کردہ کئِ مختلف مضامین ملے۔
Times Now میں 17 مارچ 2021 کو پوسٹ کردہ ایک نیوز آرٹیکل کے مطابق ، "بی ایچ یو نے طالب علموں کی علمی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نیتا امبانی کو ویمنس اسٹڈی سینٹر میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر شامل کرنے کے لئے انکی تقرری پر غور کیا تھا۔ ریلائنس انڈسٹریز نے خواتین کو بااختیار بنانے کے شعبے میں کافی کام کیا ہے۔ لیکن یونکیورسٹی کا یہ اعلان محض زبانی تھا۔
پھر ہم نے jagran.com پر 17 مارچ، 2023 کوپوسٹ کردہ ایک مضمون ملا، جس میں لکھا تھا: "ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ نے نیتا امبانی کو بی ایچ یو کا وزیٹنگ پروفیسر بنانے سے انکار کردیا"
نیتا امبانی کو بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں وزیٹنگ پروفیسر مقرر کیے جانے کی خبروں کے بعد کمپنی کی جانب سےایک تردیدی بیان جاری کیا گیا۔ خبر رساں ادارے ANI کے مطابق نیتا امبانی کو بی ایچ یو کی جانب سے کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔ ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ نے بھی اس سلسلے میں جانکاری جاری کی ہے۔
ہمیں نیوز ایجنسی ANI کے X ہینڈل پر 17 مارچ 2021 کو پوسٹ کردہ ایک پوسٹ ملا جس میں نیتا امبانی کی تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا گیا تھا: "ایسی خبریں کہ نیتا امبانی (تصویر دیکھِیں) بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں وزیٹنگ لیکچررکے طور پر خدمات انجام دیں گی، فرضِی خبر ہے۔ انہیں بی ایچ یو سے کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔ ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ کے ترجمان نے اے این آئی کو یہ بیان دیا۔
بی ایچ یو پر پوسٹ کئے جانے والے کچھ اخباری مضامین اور وزیٹنگ پروفیسر فیکلٹی کے بارے میں کچھ جانکاری۔
یہ پوسٹس 2021 میں شائع کئے گئَے تھَے
مزید وضاحت کے لیے ہم نے بی ایچ یو کے سوشل میڈیا ہینڈلز کو سرچ کیا۔ اس کے ایکس ہینڈل میں، ہمیں ایک پوسٹ ملا جو 17 مارچ، 2021 کو شائع کیا گیا تھا جس میں نیتا امبانی کی سینٹر فار ویمن اسٹڈیز کے فیکلٹی آف سوشل سائنس، بی ایچ یو میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر تقرری کے بارے میں میڈیا رپورٹس کا ذکر کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی حکام نے واضح کیا کہ اس ضمن میں بی ایچ یو انتظامیہ کی طرف سے کوئی سرکاری فیصلہ نہیں لیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی انتظامی آرڈر جاری کیا گیا تھا۔ وزیٹنگ پروفیسرز کی تقرری کے لئے اکیڈمک کونسل کی منظوری لازمی ہے لیکن حکام کو نیتا امبانی کی تقرری کے بارے میں کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی۔
لہٰذا وائرل پوسٹ کے ذریعے سوشل میڈیا صارفین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پرانے اخبارات کے تراشوں کو دوبارہ استعمال کرتے ہوئے عوام کو الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔