Fact Check: بنگلہ دیش میں مندر گرائے جانے کے وائرل ویڈیو کی کیا ہے سچائی؟
بنگلہ دیش میں جاری غیریقینی صورتحال کے بیچ سوشل میڈیا پر درگاہ کو گرائے جانے کا ویڈیو فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ وائرل کیا جارہا ہے۔
بنگلہ دیش میں گذشتہ چند ہفتوں سے اقلیتی ہندووں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پڑوسی ملک میں جاری شورش کے ویڈیوز بھارت میں سوشل میڈیا پر خوب شئیر کئے جارہے ہیں جن میں سے کچھ میں سچائی ہے تو کچھ میں مبالغہ سے کام لیتے ہوئے معاشرے میں نفرت پھیلائی جارہی ہے۔
اسی کے چلتے بنگلہ دیش کی سرحد سے جڑی ریاست تریپورہ کی عوام میں خوب برہمی پائی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہندو سنت چنموئے کرشنا داس کی گرفتاری کے خلاف ریاست میں بڑے پیمانے پر احتجاج کئے جارہے ہیں۔ چند قبل برہم مظاہرین نے اگرتلہ میں بنگلہ دیش اسسٹنٹ ہائی کمیشن میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ مچائی۔ جس کے بعد بنگلہ دیش کی نگران کار حکومت نے ڈھاکہ میں مقیم بھارتی پرنئے ورما کو طلب کرتے ہوئے اگرتلہ میں اپنے ہائی کمیشن میں سکیورٹی کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا۔
بنگلہ دیش میں ہندووں کے مکانات اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنائے جانے کا تاثر دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر ان گنت ویڈیوز شئیر کئے جارہے ہیں۔ ایسا ہی ایک ویڈیو ایکس پلیٹ فارم ہر عام ہورہا ہے جس میں چند مسلم نوجوانوں کو ایک عمارت گراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وائرل پوسٹ میں دعویٰ کیا جارہا ہیکہ "بنگلہ دیش میں اسلام پسند لوگ ہندووں کے گھر، مندر اور دکانات تباہ کررہے ہیں۔
دعویٰ:
Dire situation of Hindus in Bangladesh.
Izlamists are attacking and vandalising Hindu houses, Hindu Temples and Hindu establishments
Hindus in India should watch this without fail.
ترجمہ: "بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی سنگین صورتحال ہے۔ اسلام پسند لوگ ہندووں کے گھر، مندر اور دکانات تباہ کررہے ہیں۔ بھارت کے ہندوؤں کو یہ ویڈیو ضرور دیکھنا چاہئے۔"
وائرل پوسٹ کو @ssaratht نامی یوزر نے ایکس پر شئیر کیا ہے جسے 41 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا گیا، 2 ہزار بار پسند اور قریب ڈیڑھ ہزار مرتبہ دوبارہ شیئر کیا گیا ہے۔
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال میں پایا کہ وائرل پوسٹ میں دکھائے گئے مناظر کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہم نے تحقیق کا آغاز کرتے ہوئے گوگل ریورس امیج سرچ ٹول میں وائرل ویڈیو کے کلیدی فریم تلاش کی مدد سے تلاش کیا تو ہمیں ایک فیس بک پوسٹ ملا جس میں وائرل ویڈیو شامل کیا گیا ہے۔ تاہم اسکے ایک تبصرے میں دعویٰ کیا گیا ہیکہ 'یہ زیارت گاہ دراصل ایک مسلم پیر کی ہے، جو گرادی جارہی ہے۔'
اس جانکاری کی مدد سے مزید گوگل سرچ کرنے ہر ہمیں بنگلہ دیش کے 'دی ڈیلی اسٹار' نامی نیوز پورٹل کا 14 ستمبر کا ایک مضمون ملا، جس میں بتایا گیا ہیکہ "سراج گنج کے قاضی پور اپ ضلع میں علی خواجہ عرف علی پاگول کی مزار گرادئے جانے کے بعد" زائرین نے سالان "عرس" کیلئے عارضی ڈھانچہ بنایا ہے۔
اگست 29 کو مختلف دیہات کے لوگوں کے ایک ہجوم نے منصور نگر یونین کے کماریاباری علاقہ میں واقع درگاہ کو یہ کہہ کر مسمار کردیا تھا کہ نوجوانوں نے اسے منشیات کا اڈہ بنالیا ہے۔
پھر ہم نے مطلوبہ الفاظ کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں 'دربار میجواندار" نامی فیس بک پیج پر 29 اگست کا درگاہ توڑنے کا حقیقی ویڈیو ملا۔ اس پوسٹ میں بتایا شامل متن میں لکھا گیا ہے: 'اللہ کے علی حضرت بابا علی پگلہ [رحمۃ اللہ علیہ] کی مزار پر توڑپھوڑ کی جارہی ہے۔ '
تحقیق سے پتہ چلا کہ وائرل پوسٹ میں ایک مسلم پیر "حضرت بابا علی پگلہ' کی مزار کے مسمار کئے جانے کے مناظر دکھائے گئے ہیں نہ کہ کوئی ہندو مندر توڑا جارہا ہے۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا جو فرقہ واریت کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔