Fact Check: مدرسہ پر چھاپے کی پرانی تصویروں کو اسلحہ کی غیر متعلقہ تصویروں کے ساتھ جوڑ کر دوبارہ کیا جارہا ہے وائرل
یوپی کے مدرسہ پر چھاپے کی پرانی تصویر کو اسلحہ کی غیر متعلقہ تصویروں کے ساتھ جوڑکر جھوٹی خبر پھیلائی جارہی ہے
واٹس ایپ پلیٹ فارم پر اسلحہ اور چند افراد کی گرفتاری کی مختلف تصاویر کو جوڑ کر اس دعوے کے ساتھ شئیر کیا جارہا ہیکہ اترپردیش کے بجنور ضلع میں ایک اسلامی مدرسہ پر پولیس کی چھاپہ ماری کے دوران مشین گن سمیت دیگر ہتھیار اور اسلحہ برآمد ہوا اورساتھ ہی مدرسہ کے 6 ملازمین کو بھی گرفتار کیا گیا۔
تلگو زبان میں کیا گیا دعویٰ:
ఉత్తరప్రదేశ్లోని బిజ్నోర్ లోని మదర్సాపై దాడిలో ఆయుధాల గుట్ట! 6 మౌల్వీ అరెస్ట్! ఆందోళన కలిగించే విషయం ఏంటంటే.. ఎల్ఎంజీ మెషిన్ గన్ దొరికింది! నిమిషంలో ఎనిమిది వేల రౌండ్లు కాల్చగల సామర్థ్యం ఉన్న మెషిన్ గన్! ఈ వ్యక్తుల తయారీని అర్థం చేసుకోండి! •• హిందువులారా మేల్కోండి, మేల్కోండి, వారు మీ భవిష్యత్తును నిర్ణయించారు. మోడీ దిగిపోవడమే ఆలస్యం. ప్రతి హిందూ సోదరునికి ఈ సత్యాన్ని పంచండి మీ ఫోన్లోని అన్ని వాట్సాప్ నంబర్లు అందరికీ షేర్ చేయండి
ترجمہ: "اترپردیش کے ضلع بجنور میں مدرسہ پر چھاپے کے دوران اسلحہ برآمد۔ 6 مولوی گرفتار۔ حیرانی کی بات یہ ہیکہ اس میں لائیٹ ویٹ مشین گن بھی شامل ہے جو ایک منٹ میں 8 ہزار راونڈس گولیاں فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان لوگوں کی تیاری تو دیکھو۔ ہندووں جاگو خواب غفلت سے کیوں کہ اس قوم نے تمہارے مستقبل کا فیصلہ کردیا ہے اور انہیں صرف مودی کے اقتدار سے ہٹنے کا انتظار ہے۔ اس سچی خبر کو اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ شئیر کرو۔"
اس دعوے کے متن کو جب ہم نے انگریزی میں ترجمہ کرکے گوگل پر سرچ کیا تو ہمیں 20 اگست 2024 کا اس سے ملتا جلتا ٹوئیٹ ملا جس میں انہی الفاظ کے ساتھ ہندی زبان میں دعویٰ کیا گیا ہے اور یہی تصاویر شئیر کی گئی ہیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی تحقیق کے دوران پایا کہ وائرل دعوے میں اسلحہ کی غیرمتعلقہ تصاویر کو جوڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جانچ پڑتال کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے ایک ایک تصویر کو گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کے ذریعے تلاش کیا تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ ایک واقعہ کی تصاویر نہیں بلکہ مختلف اوقات اور مخلتف مقامات پر پیش آنے والے واقعات کی تصاویر ہیں۔
چونکہ وائرل دعوے میں مختلف واقعات کی تصویروں کو یکجا کرکے غلط بیانئے کے ساتھ شئیر کیا گیا ہے، آئیے ان تصویروں کی ایک ایک کرکے جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
تصویر1 ۔
اس ٹوئیٹ میں دو مختلف تصاویر کو جوڑ کر دعویٰ کیا گیا ہیکہ اترپردیش کے بجنور میں مدرسہ میں چھاپے کے دوران 6 مولوی گرفتار اور 8 ہزار کارتوس، مشین گن اور ہتھیاروں کا ذخیرہ کس تہوار کیلئَے جمع کیا گیا؟
اس تصویر کو گوگل ریورس امیج سرچ کرنے پر ہمیں وارتا بھارتی کی 27 جولائی 2017 کی نیوز رپورٹ ملی جس میں بتایا گیا ہیکہ پنجاب میں سکھوں کے تلوار اور کرپان کی فیکٹری اور گودام کی تصایر کو کیرلہ کی پاپولر فرنٹ آف انڈیا [PFI] تنظیم کے گودام میں چھاپہ ماری کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ کی برآمدی کے جھوٹے دعوے کے ساتھ شئیر کیا گیا ہے۔
تصویر 2۔
ان دون تصویروں کے کولاج کو گوگل ریورس امیج سرچ کرنے پر میں دو مختلف نتائج ملے۔
ہندی نیوز پورٹل 'سماچارنامہ' کے مطابق، کولکاتہ کی اسپیشل ٹاسک فورس [ایس ٹی ایف] پولیس نے دو الگ الگ مقامات پر چھاپے مارکر اسلحہ کی اسمگلنگ کرنے والی ٹولی کو بے نقاب کرتے ہوئے 9 ملزمین کو گرفتار کیا۔
اس بیچ ہمیں 'گجرات ہیڈلائین' نامی ایک اور نیوز آرٹیکل ملا جس میں بتایا گیا راجکوٹ کے کوچیہ داڈ علاقہ میں انڈیا پیالیس ہوٹل کے قریب پولیس کی چھاپہ ماری کے دوران ایک ناولٹی اسٹور سے 257 تلواریں سمیت بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کیا گیا۔
دوسری تصویر سے متعلق گجرات ہیڈلائین کی رپورٹ قابل اعتبار ہے کیونکہ دیگر میڈیا نے بھی تصدیق کی ہیکہ یہ واقعہ گجرات کا ہے اور پولیس نے ایک ناولٹی اسٹور پر دھاوا مارکر بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کیا تھا۔
تصویر 3۔
تصویر4۔
انڈیا ٹوڈے کی 11 جولائی 2019 کی نیوز رپورٹَ کے مطابق، پولیس نے کفیہ اطلاع ملنے پر شیرکورٹ علاقہ میں قائم دار القرآن حمیدیہ مدرسہ پر چھاپے کی کارروائی کی تھی۔ شرکل افسر کریپا شنکر قنوجیہ کے مطابق، پولکیس نے کارروائی کے دوران تین دیسی پستول، 32 بور والے پستول اور بھاری مقدار میں کارتوس برآمد کئے جو کہ دوائی کے ڈبوں میں رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 6 ملزمین کو حراست میں لیا گیا۔
اے بی پی لائیو نے بھی اس معاملے اپنی رپورٹ نشر کی تھی۔ 3.25 کے ٹائم اسٹامپ پرہم برآمد کیا گیا اسلحہ اور مدرسہ کے مناظر دیکھَ سکتے ہیں۔
ضبط شدہ اسلحہ کی پرانی تصاویر کو لیکر سوشل میڈیا میں گمراہ کن خبریں پھیلائے جانے پر 8 نومبر 2020 کو بجنور کی پولیس نے اپنے ایکس اکاونٹ پر چھاپہ مار کارروائی کی تفصیل شئیر کرتے ہوئے جھوٹی خبر کی مذمت کی تھی۔