Fact Check: آئی سی ایس ای کے نصاب میں مسجد کو صوتی آلودگی کی وجہ بتانے کے دعوے کی کیا ہے سچائی
صوتی آلودگی سے متعلق مسجد کی تصویر کی سات سال پرانی خبر کو گمراہ کن دعوے کے ساتھ دوبارہ وائرل کیا جارہا ہے
بھارت نہ صرف فضائی بلکہ صوتی آلودگی سے بھی جوجھ رہا ہے۔ کئی بڑے شہروں میں صوتی آلودگی اور بڑھتے شور شرابے کی وجہ سے مقامی حکومتیں کئی ایک اقدام کررہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں حیدرآباد کی پولیس نے عوام کی مسلسل شکایتوں کے بعد عوامی جلسوں اور مذہبی جلوسوں میں ڈی جے کے استعمال پر پابندی لگادی۔
صوتی آلودگی سے نہ صرف بچوں اور بوڑھوں کو پریشانی ہوتی ہے بلکہ اس سے کئی نفسایتی بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، متاثرین میں چڑچڑاپن، نیند میں خلل، بہراپن، ہائپرٹنشن اور دل کے عارضہ کا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
بچوں کے اسکولی نصاب میں ماحولیاتی نظام کی کتابوں میں عموما مختلف قسم کی آلودگیوں سے متعلق اسباق ہوتے ہیں جن میں فضائی، صوتی، آبی اور دیگر اقسام کی آلودگیوں سے ہمارے ماحول اور خود ہمیں کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ اسکولی نصاب میں طلبا کوماحولیاتی خطرات کو سمجھانے کیلئے فیکٹری، کار، وغیرہ کی مختلف تصاویر شامل کی جاتی ہیں۔
اس پس منظر میں سوشل میڈیا پر اسکولی نصاب کی ایک تصویر کو شئیر کرتے ہوئے یہ باور کیا جارہا ہیکہ 'مسجد' سے بھی صوتی آلودگی ہوتی ہے۔
Chad_infi نامی ایکس یوزر نے ICSE کے نصاب میں شامل صوتی آلودگی کے سبق سے ایک تصویر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ "ICSE اپنے نصاب میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا۔" [ ICSE board books are savage ]
اس پوسٹ کو اب تک 9 لاکھ کے قریب لوگوں نے دیکھا ہے۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال کے دوران پایا کہ یہ 2017 کا واقعہ ہے جسے دوبارہ فرضی دعوے کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کیا جارہا ہے۔
ماضی میں اسی نوعیت کے دعوے شئیر کئے گئے تھے۔
فیس بک پر شئیر کئے گئے اس معافی نامے میں سیلینا پبلشرس کے ذمہ دار ہیمنت گپتا نے اس غلطی کیلئے معذرت چاہی اور کہا کہ مستقبل میں شائع کی جانے والی سائِنس کی کتاب میں یہ تصویر ہٹادی جائیگی، تاہم انہوں نے موجودہ کتابوں کو واپس لینے کے بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا۔
واضح رہے کہ ان دنوں بالی ووڈ کے گلوکار سونو نگم نے ایک متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد کے میناروں پر لگے لاوڈ اسپیکروں سے نماز کیلئے دی جانے والی آزان کی آواز سے انکی نیند میں خلل پڑتا ہے۔
اس معاملے کے منظرعام پر آنے کے بعد مجلس اتحاد المسلمین کے اکبرباغ ڈیوژن کے کارپوریٹر سید منہاج الدین نے حیدرآباد کے سعید آباد پولیس تھانے میں شکایت درج کروائی کہ نصابی کتاب میں 'متنازعہ' تصویر چھاپ کر'مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا گیا ہے۔'
آواز بھی ایک طرح کی طاقت ہے۔ کبھی آواز سننے میں اچھی لگتی ہے اور کبھی اونچی آواز سننے والوں پر گراں گذرتی ہے۔ آواز کی شدت کو ڈیسیبل[ dB] کی اکائی میں ناپا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت یا ڈبلیو ایچ او کے مطابق کسی مصروف شاہراہ پر دن کے وقت گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوسط شور 54 ڈیسیبل تک ہونا چاہیے اور ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے ہونے والا شور تو اوسطاﹰ 54 ڈیسیبل سے زیادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
54 کی شدت کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے جب کوئی انسان آہستہ آواز میں کسی دوسرے انسان سے کوئی بات کہتا یا سرگوشی کرتا ہے، تو اس کی آواز کی شدت اوسطاﹰ 30 ڈیسیبل ہوتی ہے۔ اگر ہلکی آواز میں ریڈیو سنا جائے، تو اس سے نکلنے والی آواز کی شدت 50 ڈیسیبل ہوتی ہے۔