Fact Check: آئی سی ایس ای کے نصاب میں مسجد کو صوتی آلودگی کی وجہ بتانے کے دعوے کی کیا ہے سچائی

صوتی آلودگی سے متعلق مسجد کی تصویر کی سات سال پرانی خبر کو گمراہ کن دعوے کے ساتھ دوبارہ وائرل کیا جارہا ہے

Update: 2024-10-10 16:25 GMT

ICSE syllabus

بھارت نہ صرف فضائی بلکہ صوتی آلودگی سے بھی جوجھ رہا ہے۔ کئی بڑے شہروں میں صوتی آلودگی اور بڑھتے شور شرابے کی وجہ سے مقامی حکومتیں کئی ایک اقدام کررہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں حیدرآباد کی پولیس نے عوام کی مسلسل شکایتوں کے بعد عوامی جلسوں اور مذہبی جلوسوں میں ڈی جے کے استعمال پر پابندی لگادی۔

صوتی آلودگی سے نہ صرف بچوں اور بوڑھوں کو پریشانی ہوتی ہے بلکہ اس سے کئی نفسایتی بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، متاثرین میں چڑچڑاپن، نیند میں خلل، بہراپن، ہائپرٹنشن اور دل کے عارضہ کا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

بچوں کے اسکولی نصاب میں ماحولیاتی نظام کی کتابوں میں عموما مختلف قسم کی آلودگیوں سے متعلق اسباق ہوتے ہیں جن میں فضائی، صوتی، آبی اور دیگر اقسام کی آلودگیوں سے ہمارے ماحول اور خود ہمیں کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ اسکولی نصاب میں طلبا کوماحولیاتی خطرات کو سمجھانے کیلئے فیکٹری، کار، وغیرہ کی مختلف تصاویر شامل کی جاتی ہیں۔

اس پس منظر میں سوشل میڈیا پر اسکولی نصاب کی ایک تصویر کو شئیر کرتے ہوئے یہ باور کیا جارہا ہیکہ 'مسجد' سے بھی صوتی آلودگی ہوتی ہے۔

Chad_infi نامی ایکس یوزر نے ICSE کے نصاب میں شامل صوتی آلودگی کے سبق سے ایک تصویر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ "ICSE اپنے نصاب میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا۔" [ ICSE board books are savage ]

اس پوسٹ کو اب تک 9 لاکھ کے قریب لوگوں نے دیکھا ہے۔


فیکٹ چیک:

تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال کے دوران پایا کہ یہ 2017 کا واقعہ ہے جسے دوبارہ فرضی دعوے کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کیا جارہا ہے۔

ماضی میں اسی نوعیت کے دعوے شئیر کئے گئے تھے۔

ہم نے اپنی تحیقیق کے آغاز میں گول ریورس امیج سرچ کیا تو جو نتایج ملے ان سے پتہ چلتا ہیکہ یہ خبر 2017 کی ہے۔
انڈیا ٹوڈے میں 2 جولائی 2017 کو چھپی پی ٹی آئی کی نیوز کے مطابق، ICSE کی VI ویں جماعت کی انٹی گریٹیڈ سائینس کی کتاب [کے صفحہ نمبر 202 پر] میں 'مسجد' کو صوتی آلودگی کی ایک وجہ بتانے پر سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا جس کے بعد Selina پبلشر نے اپنی معافی نامی جاری کیا۔ اس کتاب میں ٹرین، کار، ہوائِی جہاز کی تصویروں کے ساتھ ساتھ مسجد کا خاکہ شامل کرکے اسے بھی شورشرابے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔

فیس بک پر شئیر کئے گئے اس معافی نامے میں سیلینا پبلشرس کے ذمہ دار ہیمنت گپتا نے اس غلطی کیلئے معذرت چاہی اور کہا کہ مستقبل میں شائع کی جانے والی سائِنس کی کتاب میں یہ تصویر ہٹادی جائیگی، تاہم انہوں نے موجودہ کتابوں کو واپس لینے کے بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا۔

Full View

واضح رہے کہ ان دنوں بالی ووڈ کے گلوکار سونو نگم نے ایک متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد کے میناروں پر لگے لاوڈ اسپیکروں سے نماز کیلئے دی جانے والی آزان کی آواز سے انکی نیند میں خلل پڑتا ہے۔

اس معاملے کے منظرعام پر آنے کے بعد مجلس اتحاد المسلمین کے اکبرباغ ڈیوژن کے کارپوریٹر سید منہاج الدین نے حیدرآباد کے سعید آباد پولیس تھانے میں شکایت درج کروائی کہ نصابی کتاب میں 'متنازعہ' تصویر چھاپ کر'مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا گیا ہے۔'

آواز بھی ایک طرح کی طاقت ہے۔ کبھی آواز سننے میں اچھی لگتی ہے اور کبھی اونچی آواز سننے والوں پر گراں گذرتی ہے۔ آواز کی شدت کو ڈیسیبل[ dB] کی اکائی میں ناپا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت یا ڈبلیو ایچ او کے مطابق کسی مصروف شاہراہ پر دن کے وقت گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوسط شور 54 ڈیسیبل تک ہونا چاہیے اور ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے ہونے والا شور تو اوسطاﹰ 54 ڈیسیبل سے زیادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

54 کی شدت کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے جب کوئی انسان آہستہ آواز میں کسی دوسرے انسان سے کوئی بات کہتا یا سرگوشی کرتا ہے، تو اس کی آواز کی شدت اوسطاﹰ 30 ڈیسیبل ہوتی ہے۔ اگر ہلکی آواز میں ریڈیو سنا جائے، تو اس سے نکلنے والی آواز کی شدت 50 ڈیسیبل ہوتی ہے۔

Claim :  آئی سی ایس ای بورڈ نے نصاب میں مسجد کو صوتی آلودگی کی وجہ بتایا ہے
Claimed By :  Social Media Users
Fact Check :  Misleading
Tags:    

Similar News