Fact Check:کولکاتہ کے راجہ بازار سڑک حادثے کا ویڈیو گمراہ کن دعوے کے ساتھ وائرل

سڑک حادثے میں بزرگ شخص کی موت پر پولیس کی جانب سے بس ڈرائیور کو نہ روکنے پر مقامی لوگوں نے پولیس اہلکار پر برہمی ظاہر کی

Update: 2024-08-21 14:10 GMT

مغربی بنگال کے کولکاتہ شہر میں آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل کے بعد ریاست اور ملک بھر کے ڈاکٹروں میں شدید برہمی دیکھِی جارہی ہے۔ طبی تنظیموں کے جانب سے ہڑتال اور احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ ہڑتال کے نتیجے اسپتالوں میں طبی خدمات متاثر ہورہی ہیں اور مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ریاستی حکومت نے لیڈی ڈاکٹر ریپ اور قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی ہے۔

ایسے میں کولکاتہ کے راجہ بازار کے واقعہ کے ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر سوشل میڈیا پر وائرل کیا جارہا ہے۔ اس ویڈیو میں دعویٰ کیا جارہا ہیکہ کولکاتہ کی پولیس کو آر جی کار اسپتال کے بہیمانہ ریپ اور قتل کیس کو دبانے اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی ناراضگی کا خیال کئے بغیر بگڑتے لا اینڈ آرڈر پر توجہ دینی چاہئے۔ اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہیکہ کولکاتہ کے راجہ بازار میں مسلمانوں کا ایک گروہ پولیس افسر کا پیچھا کرکے اسکی پٹائی کررہا ہے۔ ممتا بنرجی سے سوال کیا گیا ہیکہ کیا وہ ان مبینہ مجرمین کے خلاف کارروائی کریگی یا ووٹ بنک کی سیاست کی وجہ سے اس معاملے کو نظر انداز کردیں گی۔ اسکے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہیکہ بنگال میں کوئی بھی محفوظ نہیں یے۔

 In West Bengal Muslim area Raja Bazar crossing road today,onduty police officer running to save his life and civic volunteer being beaten up!

Every Hindu will have to face this, today or tomorrow, secular or Leftist,BJP or TMC everyone!

ترجمہ: مغربی بنگال کے مسلم علاقہ راجہ بازار کراسنگ روڈ پر آج کا واقعہ۔ ڈیوٹی انجام دے رہے پولیس افسر جان بچاکر بھاگ نکلا اور بلدی رضاکار کو پیٹا جارہا ہے۔ ہر ہندو کو چاہے وہ سیکولر ہو یا بائیں بازو کی جماعت، بی جے ہی یا ترنمول کا ہو آج نہیں تو کل اس کا سامنا کرنا پڑیگا۔



Full View

فیکٹ چیک:

وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ فرضی ثابت ہوا کیونکہ اس میں کوئی فرقہ وارانہ عنصر نہیں پایا گیا۔

اس معاملے کی تحقیق کیلئے سب سے پہلے ہم نے #rajabazar ہیش ٹیگ سے ٹوئیٹر او یوٹیوب پر سرچ کیا توہمیں کچھ ویڈیوز ملے. ان میں اس دعوے سے متعلق کوئی خاطر خواہ جانکاری نہیں ملی تاہم، یہ ویڈیوز دوسرے زاوئے سے شوٹ کئے گئے ہیں جس سے ہمیں اپنی جانچ پڑتال میں مدد ملی۔

Full View


تاہم ٹوئیٹر پر ہمیں 15 اگست کو کیا گیا ایک پوسٹ ملا جس میں کہا گیا کہ ایک 77 سالہ بزرگ کی بدھ کے روز بس حادثے میں موت ہوگئ۔ جس سے پتہ چلا کہ یہ سڑک حادثہ 14 اگست کا ہے۔


Full View

ہم نے اپنی تحقیق جاری رکھتے ہوئے مطلوبہ کیورڈس سے گوگل امیجس میں سرچ کیا تو ہمیں تازہ TVانگریزی نیوز کا ایک ویب سائیٹ ملا جس میں اس دن ہوئے سڑک حادثے کے بارے میں تفصیل درج تھی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ روٹ نمبر 202 کی بس نے سڑک پار کررہے ایک بزرگ کو ٹکر دی جس کے نتیجے میں موقع پر ہی بوڑھے آدمی کی جان چلی گئی۔ پولیس اہلکار نے مبینہ طور پر حادثے کے بعد بس اور اسکے ڈرائیور کو جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد عوام بھڑک اٹھی اور پولیس کو مارنے کیلئے اسکی طرف لپکی اور پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کیلئے وہاں سے بھاگنے لگا۔

لہذا اس سے ثابت ہوا کہ سڑک حادثے میں نامعلوم بزرگ کی موت کے بعد بس ڈرائیور کے خلاف عدم کارروائی پر لوگوں نے پولیس اہلکار پر برہمی ظاہر کیا۔ دعوے کے برخلاف ویڈیو میں کسی بھی قسم کا فرقہ وارانہ زاویہ نہیں پایا گیا۔ ویڈیو میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔

Claim :  کولکاتہ میں اقلیتوں کی جانب سے پولیس اہلکار کو بھگا بھگاکر زدوکوب کیا گیا
Claimed By :  Social media users
Fact Check :  Misleading
Tags:    

Similar News