Fact Check:کولکاتہ کے راجہ بازار سڑک حادثے کا ویڈیو گمراہ کن دعوے کے ساتھ وائرل
سڑک حادثے میں بزرگ شخص کی موت پر پولیس کی جانب سے بس ڈرائیور کو نہ روکنے پر مقامی لوگوں نے پولیس اہلکار پر برہمی ظاہر کی
مغربی بنگال کے کولکاتہ شہر میں آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل کے بعد ریاست اور ملک بھر کے ڈاکٹروں میں شدید برہمی دیکھِی جارہی ہے۔ طبی تنظیموں کے جانب سے ہڑتال اور احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ ہڑتال کے نتیجے اسپتالوں میں طبی خدمات متاثر ہورہی ہیں اور مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ریاستی حکومت نے لیڈی ڈاکٹر ریپ اور قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی ہے۔
ایسے میں کولکاتہ کے راجہ بازار کے واقعہ کے ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر سوشل میڈیا پر وائرل کیا جارہا ہے۔ اس ویڈیو میں دعویٰ کیا جارہا ہیکہ کولکاتہ کی پولیس کو آر جی کار اسپتال کے بہیمانہ ریپ اور قتل کیس کو دبانے اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی ناراضگی کا خیال کئے بغیر بگڑتے لا اینڈ آرڈر پر توجہ دینی چاہئے۔ اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہیکہ کولکاتہ کے راجہ بازار میں مسلمانوں کا ایک گروہ پولیس افسر کا پیچھا کرکے اسکی پٹائی کررہا ہے۔ ممتا بنرجی سے سوال کیا گیا ہیکہ کیا وہ ان مبینہ مجرمین کے خلاف کارروائی کریگی یا ووٹ بنک کی سیاست کی وجہ سے اس معاملے کو نظر انداز کردیں گی۔ اسکے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہیکہ بنگال میں کوئی بھی محفوظ نہیں یے۔
In West Bengal Muslim area Raja Bazar crossing road today,onduty police officer running to save his life and civic volunteer being beaten up!
Every Hindu will have to face this, today or tomorrow, secular or Leftist,BJP or TMC everyone!
ترجمہ: مغربی بنگال کے مسلم علاقہ راجہ بازار کراسنگ روڈ پر آج کا واقعہ۔ ڈیوٹی انجام دے رہے پولیس افسر جان بچاکر بھاگ نکلا اور بلدی رضاکار کو پیٹا جارہا ہے۔ ہر ہندو کو چاہے وہ سیکولر ہو یا بائیں بازو کی جماعت، بی جے ہی یا ترنمول کا ہو آج نہیں تو کل اس کا سامنا کرنا پڑیگا۔
فیکٹ چیک:
وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ فرضی ثابت ہوا کیونکہ اس میں کوئی فرقہ وارانہ عنصر نہیں پایا گیا۔
اس معاملے کی تحقیق کیلئے سب سے پہلے ہم نے #rajabazar ہیش ٹیگ سے ٹوئیٹر او یوٹیوب پر سرچ کیا توہمیں کچھ ویڈیوز ملے. ان میں اس دعوے سے متعلق کوئی خاطر خواہ جانکاری نہیں ملی تاہم، یہ ویڈیوز دوسرے زاوئے سے شوٹ کئے گئے ہیں جس سے ہمیں اپنی جانچ پڑتال میں مدد ملی۔
تاہم ٹوئیٹر پر ہمیں 15 اگست کو کیا گیا ایک پوسٹ ملا جس میں کہا گیا کہ ایک 77 سالہ بزرگ کی بدھ کے روز بس حادثے میں موت ہوگئ۔ جس سے پتہ چلا کہ یہ سڑک حادثہ 14 اگست کا ہے۔
ہم نے اپنی تحقیق جاری رکھتے ہوئے مطلوبہ کیورڈس سے گوگل امیجس میں سرچ کیا تو ہمیں تازہ TVانگریزی نیوز کا ایک ویب سائیٹ ملا جس میں اس دن ہوئے سڑک حادثے کے بارے میں تفصیل درج تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ روٹ نمبر 202 کی بس نے سڑک پار کررہے ایک بزرگ کو ٹکر دی جس کے نتیجے میں موقع پر ہی بوڑھے آدمی کی جان چلی گئی۔ پولیس اہلکار نے مبینہ طور پر حادثے کے بعد بس اور اسکے ڈرائیور کو جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد عوام بھڑک اٹھی اور پولیس کو مارنے کیلئے اسکی طرف لپکی اور پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کیلئے وہاں سے بھاگنے لگا۔
لہذا اس سے ثابت ہوا کہ سڑک حادثے میں نامعلوم بزرگ کی موت کے بعد بس ڈرائیور کے خلاف عدم کارروائی پر لوگوں نے پولیس اہلکار پر برہمی ظاہر کیا۔ دعوے کے برخلاف ویڈیو میں کسی بھی قسم کا فرقہ وارانہ زاویہ نہیں پایا گیا۔ ویڈیو میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔