Fact Check: دنیا کا سب سے بڑا کارگو طیارہ اے این-225 کیف پر روسی حملے میں تباہ شدہ

دنیا کا سب سے بڑا کارگو طیارہ انتونوف این - 225 جسے "مریا" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایران میں اسکی لینڈنگ ہوئی

Update: 2024-08-19 16:45 GMT

ایران نے روس کےآرمی 2024 فورم، جو کہ ایک سالانہ بین الاقوامی فوجی تکنیکی پروگرام پے، میں اپنے مہاجر-10 ڈرونز کی نمائش کی۔ مہاجر-10 اپنی بہتر پرواز کی رینج اور پے لوڈ کی صلاحیت میں اضافے کیلئے جانا جاتا ہے۔ نمائش میں دکھائے گئے فوجی اسلحہ پرعبرانی اور فارسی دونوں زبانوں میں "اپنی پناہ گاہیں تیار کرلیں" کا متن تحریر کیا گیا تھا۔

امریکہ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ روس کو بیلسٹک میزائل روانہ نہ کرے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے اپنی پریس بریفنگ میں ایران روس کی جانب سے روس کو سینکڑوں بیلسٹک میزائل فراہم کرنے کے منصوبے کی میڈیا رپورٹس پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔

اس بیچ، اثنا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاص طور پر ایکس (ٹویٹر) پر ایک طیارے کی تصویر اس دعوے کے ساتھ شیئر کی جارہی ہے کہ اس میں روس کا اے این 225 فوجی طیارہ، جو دنیا کا سب سے بڑا کارگو طیارہ ہے، ایران میں لینڈ ہوا ہے۔ روس اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط کی قیاس آرائیوں کے درمیان یہ پوسٹ کیا گیا ہے۔


فیکٹ چیک:

یہ دعویٰ فرضی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا طیارہ انتونوف اے این 225 روس۔یوکرین کی 2022 جنگ میں تباہ کردیا گیا تھا۔

جب ہم نے اے این 225 ائیرکرافٹ جیسے کیورڈس سے گوگل پرسرچ کیا تو ہمیں متعدد میڈیا پورٹلس پر شائع کردہ کئی مضامین ملے جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اب یہ طیارہ موجود نہیں ہے۔ طیارہ اے این-225 یوکرین کا طیارہ تھا اور اس کا تعلق روس سے نہیں ہے۔

سی این این کی جانب سے فروری 2022 میں شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا کہ یوکرین کے حکام کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کے دوران دنیا کا سب سے بڑا طیارہ انتونوف اے این-225 تباہ ہو گیا۔ اس حملہ کی وجہ سے ہوابازی کی دنیا میں تشویش اور غم کی لہر دوڑ گئی۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ مقامی زبان میں 'مریا' یعنی 'ڈریم' کے نام سے جانے جانے والے اس دیو ہیکل طیارہ کو 'روسی قابضوں' نے اس وقت نشانہ بنایا جب اسے کیف شہر کے قریب ایک ہوائی اڈے پر کھڑا کیا گیا تھا۔

بزنس انسائیڈر میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اور اپنی نوعیت کا واحد طیارہ تباہ ہو گیا تھا۔ اس طیارے نے دسمبر 1988 میں اپنی پہلی اڑان بھری تھی۔ کیف کی انتونوف کمپنی نے سوویت کے دور حکومت میں یو ایس ایس آر کے بوران خلائی جہاز کی منتقلی کیلئے اے این -225 "مریا " جس کا مطلب یوکرینی زبان میں "خواب" ہے ، کو بنایا تھا- ٹھیک اسی طرح امریکہ کے بوئنگ 747 نے بھی ناسا کے خلائی شٹل کو منتقل کیا تھا۔اسکے بعد یوکرین کی کمپنی کو ایک اور 'مریا' بنانے کا آرڈر دیا گیا تاہم 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس کی تیاری میں سست روی دیکھی گئی تاہم، 2009 تک اس طیارہ کی تیاری کا کام تقریبا 70 فیصد مکمل کرلیا گیا، لیکن ابھی تک اس کو پائے مکمل نہیں پہنچایا گیا۔

سی این بی سی کی رپورٹ کی تصاویر میں ہمسایہ ملک یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا کے سب سے بڑے کارگو طیارے انتونوف اے این 225 کی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین نے طیارہ ساز کمپنی انتونوف کے تین سابق اعلیٰ مینیجرز کو ملک کی فوج میں رکاوٹ ڈالنے اور روس کو بڑے پیمانے پر جنگ کے آغاز پر مشہور 'مریا' کارگو طیارے کو تباہ کرنے کی اجازت دینے پر شبہ کی نوٹسیں جاری کی گئی تھی۔ اس مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ہوسٹومل میں انتونوف ہوائی اڈہ، ایک بین الاقوامی کارگو ٹرمینل ہے جو دنیا کے سب سے بڑے کارگو طیارے انتونوف اے این -225 - یا "مریا" کی پارکنگ اور اسکی اڑان کے لئے ایک طویل رن وے کے ساتھ بنایا گیا تھا، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے کیف پر منصوبہ بند حملے کا ایک اہم ہدف تھا۔

یوکرین کا تیارہ کردہ دیوہیکل کارگو طیارہ 'مریا' کا وزن 705 ٹن ہے اور اس کے بازووں کی لمبائی 290 فٹ ہے۔ فروری 2022 کے اواخر میں روسی افواج نے ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کی کوشش کے دوران اسے تباہ کر دیا تھا جس سے یوکرین کو ایک بڑا علامتی دھچکا لگا کیونکہ اس نے سقوط کیف کو ناکام بنانے کی کوشش کی تھی۔ روسی فوج نے کئی ہفتوں تک اس علاقے پر قبضہ جمالیا تھا لیکن بعد میں یوکرین کی مسلح افواج نے اسے روسی گوج کے قبضے سے آزاد کرالیا۔

لہٰذا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اے این 225 طیارہ جو دنیا کا سب سے بڑا کارگو طیارہ ہے، اسکی ایران میں لینڈنگ ہوئی۔ یہ طیارہ روس نے نہیں بلکہ یوکرین نے تیار کیا تھا اور یوکرین پر روسی حملے میں ایکلوتا اے این 225 طیارہ تباہ کردیا گیا تھا۔

Claim :  روس کے سب سے بڑے کارگو طیارے، اے این۔ 225 کی ایران میں لینڈنگ
Claimed By :  Twitter users
Fact Check :  False
Tags:    

Similar News